اسرائیل کے قومی انتخابات کے وواٹوں کی گنتی جاری ہے اور بدھ تک شمار ہونے والے ووٹوں کے مطابق سابق وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہوکی جیت واضح ہوتی نظر آرہی ہے۔ قومی انتخابات میں ڈالے گئے تقریباً 85 فیصد ووٹوں کی گنتی ہوچکی ہے، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ووٹرزکی اکثریت نے ملک کی پارلیمنٹ میں انہیں اوران کے انتہائی دائیں بازو کے اتحادیوں کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔
ووٹوں کی گنتی جاری ہے اوریہ نتائج حتمی نہیں ہیں۔ لیکن اگرابتدائی اشارے درست ثابت ہوئے تو، اسرائیل ممکنہ طور پرانتہائی دائیں بازو کی قوم پرست یہود ی حکومت کی تشکیل کے حق میں ہوگا، جس کے اراکین عرب مخالف اورایل جی بی ٹی کیو، یعنی ہم جنس پرستوں کے مخالف اشتعال انگیز بیانات دیتے آئے ہیں۔
ابتدائی نتائج اسرائیلی رائے دہندگان میں مسلسل دائیں جانب جھکاو کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، جس سے فلسطینیوں کے ساتھ امن کی امیدیں مزید کم ہو گئی ہیں۔ اوربائیڈن انتظامیہ کے ساتھ ممکنہ اختلافات کے امکان بڑھ گئے ہیں۔
ابتدائی نتائج نے یہ بھی ظاہر کیا کہ نیتن یاہو نے اپنے مخالفین پرغلبہ حاصل کیا ہے، جنہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اپنے خلاف بدعنوانی کے مقدمے کے باعث وہ حکومت کرنے کے قابل نہیں ہیں اورانہوں نے حکومت میں ان کے ساتھ بیٹھنے سے انکارکردیا تھا۔ نیتن یاہو کے شراکت داروں نے انہیں سزا سے بچنے میں مدد دینے کا وعدہ کیا ہے۔
73 سالہ نیتن یاہو نے بدھ کی صبح یروشلم میں ایک اجتماع میں حامیوں سے کہا کہ’’ہم ایک بہت بڑی فتح کے دہانے پرہیں ۔ میں ایک قوم پرست حکومت قائم کروں گا جو تمام اسرائیلی شہریوں کے ساتھ بلا استثناء ایک جیسا سلوک کرے گی۔"
نیتن یاہو نے فوری طور پر مکمل فتح کا دعویٰ نہیں کیا اورنہ ہی ان کے سب سے بڑے مخالف، عبوری وزیراعظم یائرلیپڈ نے شکست تسلیم کی۔ تاہم سیاسی تبدیلی کے آثارصاف نظر آرہے ہیں۔ نیتن یاہو کے ایک چیلنجر، وزیردفاع بینی گانٹز نے کہا کہ ان کی پارٹی، جوچوتھی سب سے بڑی پارٹی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، اپوزیشن کی نشستوں پربیٹھے گی۔ اس دوران لیپڈ نے مصر میں موسمیاتی کانفرنس کے لیے اپنا سفارتی دورہ منسوخ کر دیا۔
انتخابی عہدیداروں نے رات بھرووٹوں کی گنتی کا کام کیا اوربدھ کی دوپہرتک تقریباً 85 فیصد ووٹوں کی گنتی مکمل ہو چکی تھی۔ ماضی کے انتخابات کی طرح اس بار بھی مقابلہ کانٹے دار رہا، لیکن ابتدائی اشاروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیتن یاہو ملک کی 120 نشستوں والی پارلیمنٹ میں اکثریت کے ساتھ دوبارہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں ہیں۔
حتمی نتائج جمعہ کو متوقع ہیں۔ کیوںکہ ان لاکھوں بیلٹ پیپرز کی حتمی گنتی ابھی باقی ہے جو زیادہ تر ان لوگوں کے ہیں جنہوں نے اپنی باقاعدہ رہائش گاہ سے ہٹ کرنرسنگ ہومز اور دوسری جگہوں پرووٹ ڈالے تھے۔ان کی درستگی کے لیے انہیں دوبارہ چیک کرنا پڑتا ہے۔ اس بات کا امکان ہے وہ نیتن یاہو کے مخالفین کے حق میں جا سکتے ہیں، اوران کی اکثریت کا حجم کم کرسکتے ہیں۔
نیتن یاہو اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے حکومت بنانے کے لیے درکار 61 نشستوں سے زیادہ اکثریت حاصل کرنے کی پیش گوئی کے ساتھ، ملک کا طویل سیاسی بحران کسی نتیجے کی طرف بڑھ سکتا ہے، حالانکہ اسرائیل ہمیشہ کی طرح منقسم ہے۔
اگرنیتن یاہو اوران کے اتحادی فتح یاب ہوجاتے ہیں، تب بھی مخلوط حکومت کے قیام کے لیے کئی مذاکرات کئی ہفتے لے سکتے ہیں۔
نیتن یاہو اسرائیل کے سب سے طویل عرصے تک وزارت عظمی کے منصب پر فائز رہنے والے راہنما ہیں۔ انہوں نے مسلسل 12 سال حکومت کی، اس سے پہلے انہیں گزشتہ سال سنٹرسٹ لیپڈ کی قیادت میں ایک متنوع اتحاد کے ذریعے معزول کردیا گیا تھا، جو موجودہ نگران وزیر اعظم ہیں۔
اسرائیل میں ووٹرزپارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں، انفرادی سیاستدانوں کو نہیں۔ کسی بھی پارٹی نے کبھی اپنے بل بوتے پر اکثریت حاصل نہیں کی اور حکومت کرنے کے لیے اتحاد سازی ضروری ہے۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا)