فلسطینیوں کے وزیراعظم محمد اشتیہ نے خبردار کیا ہے کہ خطے کے اندر عسکریت پسندی بڑھ رہی ہے۔ ان کی جانب سے یہ انتباہ ایسے وقت میں آیا ہے جب متعدد سنی ممالک اور اسرائیل، ایران کے خلاف ایک دوسرے کے ساتھ تعاون پر بات چیت کر رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ سعودی عرب کی حکومت اسرائیل کو اس وقت تک تسلیم نہیں کرے گی جب تک کہ اسرائیل فلسطین تنازعے کا حل نہیں نکال لیا جاتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدر محمود عباس اسرائیل کے ساتھ نئی امن بات چیت کے لیے مخلص ہیں۔
وائس آف امریکہ کی نمائندہ پیٹسی وڈاکوسوار کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں وزیراعظم محمد اشتیہ نے عرب ممالک کے ساتھ حالیہ دنوں میں اسرائیل کے تعلقات میں بہتری کا احاطہ کرتے ہوئے کہا کہ اردن اس کے فوری بعد اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لے آیا جب اسرائیل اس کے زیرقبضہ علاقوں سے دستبردار ہوگیا۔
اسی طرح ان کے بقول اسرائیل نے جب مصر میں صنعائی کے علاقے کو چھوڑا تو اس نے بھی تعلقات استوار کر لیے۔ لہٰذا ہمارے نزدیک تمام عرب ملکوں کے درمیان جو چیز مشترکہ ہے ان کی بنیادیں اصولوں پر استوار ہیں کہ عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات نارمل بنائیں گے جب وہ عرب اور فلسطینی علاقوں پر اپنا قبضہ ختم کرے گا۔" یہ ایسی چیز ہے جو ابھی نہیں ہوئی ہے"۔
انہوں نے کہا کہ وہ عرب امن انیشی ایٹو کے لیے پر عزم ہیں کیونکہ اس پر عربوں کا اتفاق ہے۔" اور ہم امن کی طرف ایک ساتھ جائیں گے"۔
کیا آپ کو سعودی عرب کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے معمول پر لانے پر کوئی تشویش ہے؟ وائس آف امریکہ کے اس سوال کے جواب میں محمد اشتیہ نے کہا کہ ان کے خیال میں سعودی عرب کا موقف بہت واضح ہے۔
اپنے جواب کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ولی عہد محمد بن سلمان کا موقف بہت واضح تھا، وزیرخارجہ نے بھی ایک سے زیادہ موقعوں پر بہت وضاحت سے اس پر بات کی ہے۔ سعودی عرب اس وقت تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات نارمل نہیں بنائے گا جب تک کہ وہ سرحدوں پر اپنا قبضہ ختم نہیں کرتا۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب نے یہ بات کہہ رکھی ہے اور انہوں نے جی سیون کے اجلاس میں بھی یہ بات کہی جہاں صدر جو بائیڈن بھی موجود تھے۔
وزیراعظم محمد اشتیہ نے کہا کہ عرب امارات اور بحرین نے بھی اپنی تقاریر میں کہا ہے کہ فلسطین اہم مسئلہ ہے اور مسجد الاقصی تنازعے کا مرکزی سبب ہے اور یہ کہ دو ریاستی حل ہی بہترین حل ہے۔
انہوں نے کہا کہ عرب ممالک اس موقف پر قائم ہیں اور اسرائیل، ان کے الفاظ میں ، بدقسمتی سے ’عرب پیس انیشی ایٹو‘ کو مسترد کر رہا ہے جب کہ یہ انیشی ایٹو سال دو ہزار دو میں جاری ہوا تھا۔
وائس آف امریکہ ک نے ان سے سوال کیا کہ عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان شراکت داری بڑھ رہی ہے تاکہ ایران سے پیدا خطرات کا مقابلہ کیا جا سکے۔ کیا فلسطینی اتھارٹی بھی ایسے اتحاد کا حصہ بننا چاہے گی ، یا آپ اس پیش رفت کی فلسطینی عوام کے سامنے وضاحت کریں گے؟
جواب میں محمد اشتیہ نے کہا کہ ایسا کوئی اتحاد نہیں ہے۔" ہم سب جانتے ہیں کہ ہم نے جدہ سے آنے والے گزشتہ دنوں کے بیان پڑھ لیے ہیں کہ ایران کے مسئلے کا سیاسی حل نکالا جانا چاہیے۔ اور میرے خیال میں امریکہ بھی مذاکرات کر رہا ہے، یورپ ایران سے بات کر رہا ہے۔ ایران کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا تھا اور میرے خیال میں سعودی عرب بھی ایران سے بات کر رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے واضح طور پر بتا دیا ہے کہ وہ ایران کے خلاف کسی اتحاد کا حصہ نہیں بننے جا رہے"۔
فلسطینی وزیراعظم نے کہا کہ ہم ایک پرامن خطہ چاہتے ہیں اور اس کے لیے ہر ایک کو حق ہے کہ وہ سرحدی خود مختاری رکھتا ہو بشمول فلسطینیوں کے۔
پیٹسی کوسووار نے اس موقع پر سوال کیا کہ آیا مشرق وسطی میں بھی نیٹو طرز کا کوئی سکیورٹی کا اتحاد ہو سکتا ہے.
محمد اشتیہ نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ ہم خطے کی ملٹرائزیشن نہیں چاہتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ خطے کے اندر عسکریت پسندی کم ہو۔ اسلحے میں اضافہ ہمیں کہیں نہیں لے کر جائے گا۔ خطے میں، ان کے بقول، پہلے ہیں خون رس رہا ہے۔ آپ کو خطے میں فوجی اہلیت بڑھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ خطے کو پرامن حل کی ضرورت ہے۔ خطے کو اقتصادی ترقی کی ضرورت ہے۔اور اس سمت جانے کے لیے ہمھیں کام کرنا چاہیے۔ یہ افسوسناک ہے کہ ہم اربوں ڈالر اسلحے پر خرچ کر رہے ہیں، اگر یہ پیسہ غریب ملکوں میں خرچ کیا جائے تو ہم یمن میں ریاست کو ناکام ہوتا نہ دیکھتے، شام، عراق اور دنیا کے دیگر ملکوں میں جو صورتحال ہے، وہ نہ دیکھتے۔
وائس آف امریکہ نے سوال کیا کہ فلسطینی صدر محمود عباس نے اسرائیل کے وزیراعظم سے ٹیلی فون پر بات چیت کی ہے اور حماس کی قیادت سے بھی۔ کیا یہ پیش رفت کسی مستقل اور تعمیر ی حل کی طرف لے جا سکتی ہے۔؟
وزیراعظم محمد اشتیہ نے کہا کہ صدر محمود عباس نے صدر جو بائیڈن کی موجودگی میں اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ اسرائیلیوں کی جانب اپنا ہاتھ بڑھاتے ہیں۔ آئیں مل کر بیٹھیں اور مل کر مسئلے کا حل نکالیں۔ ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے صدر امن عمل کے لیے حقیقی چیمپئن ہیں اور وہ اصل میں امن پر یقین رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ہم ہیں جو ان کے بقول قبضے کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ ہمارے ٹینک نہیں ہیں جو تل ابیب کا محاصرہ کیے ہوئے ہیں۔ یہ اسرائیلی ٹینک ہیں جو یروشلم سمیت رملہ اور دیگر فلسطینی علاقوں کا محاصرہ کیے ہوئے ہیں ۔