اسرائیل نے بدھ کے روز چھ ماہ کے تعطل کے بعد فلسطینی اتھارٹی کو ایک ارب ڈالر منتقل کئے ہیں جو اس نے اتھارٹی کی جانب سے ٹیکسوں اور کسٹم ڈیوٹی کی مد میں اکٹھے کئے تھے۔
چھ ماہ قبل فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل کے ساتھ رابطے اس وقت منقطع کر دیے تھے جب اس نے مغربی کنارے کے چند حصوں کو اپنے اندرضم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
گزشتہ ماہ امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن کی انتخابات میں فتح کے بعد، فلسطینیوں نے اسرائیل سے اپنے رابطے بحال کئے تھے۔ بائیڈن فلسطینی علاقوں کے اسرائیل میں ضم کرنے کے مخالف ہیں، اور انہوں نے تنازع کے حل کیلئے برابری کی بنیاد پر طریقہ کار اختیارکرنےکا وعدہ کیا۔
فلسطینی اتھارٹی کی آمدن کا بنیادی ذریعہ ٹیکس ہے، جو وہ اسرائیلی قبضے والے مغربی کنارے کے کچھ حصوں سے وصول کرتا ہے۔ تاہم اس کے بعد مجبوراً اسے اپنے ہزاروں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کتوتیاں کرنا پڑیں، جس سے کرونا وائرس سے پیدا ہونے والا معاشی بحران مزید شدت اختیار کر گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
فلسطینی اتھارٹی کے صد محمود عباس کے قریبی ساتھی حسین ال شیخ نے ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر وصول ہونے کی تصدیق کی ہے۔ اسرائیل کی وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ اسرائیل کی سیکیورٹی کابینہ سے منظوری کے بعد یہ فنڈ فلسطینیوں کو منتقل کر دیے گئے ہیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اتنی ہی رقم فنڈ میں سے کاٹے گا جو فلسطینی اتھارٹی شہدا فنڈ کی مد میں اپنے قیدیوں اور تنازع میں ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ کو ادا کرتی ہے۔ ان میں وہ عسکریت پسند شامل ہیں جنہوں نے اسرائیلیوں کو ہلاک کیا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ شہدا فنڈ تشدد کو ہوا دیتا ہے، جب کہ فلسطینیوں کا موقف ہے کہ اس سے ضرورتمند خاندانوں کی مدد ہوتی ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ سے متعلق منصوبہ جنوری میں سامنے آیا تھا، جس میں، اسرائیل کو مغربی کنارے کے ایک تہائی حصے کو جس میں یہودی بستیاں بھی شامل ہیں ضم کرنے کی اجازت ملی تھی۔ فلسطینی اتھارٹی نے فوری طور پر اس منصوبے کو مسترد کر دیا تھا، اور صدر محمود عباس نے اس سال مئی میں اعلان کیا تھا کہ وہ امریکہ اور اسرائیل سے اپنے رابطے منقطع کر رہے ہیں اور وہ ماضی میں کئے گئے سمجھوتوں کو بھی ماننے کے پابند نہیں ہیں۔
اسرائیل نے اگست میں مغربی کنارے سے متعلق اپنے منصوبے کو اس وقت ترک کر دیا تھا جب متحدہ عرب امارات نے اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات معمول پر لانے سے اتفاق کیا تھا۔ تاہم اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا تھا کہ یہ تعطل صرف عارضی ہے