اسرائیل اور ترکی کے اعلیٰ سفارت کاروں نے بدھ کو کہا کہ انہیں توقع ہے ترک وزیر خارجہ کے دورے سے دونوں ممالک کے درمیان ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے جاری کشیدگی ختم کرنے اور اقتصادی تعلقات کو وسعت دینے کی راہ ہموار ہو گی۔
ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نےاسرائیل اور فلسطینی علاقوں کا دو روزہ دورہ کیا ہے۔ یہ 15 برسوں میں کسی سینئر ترک عہدیدار کا پہلا دورہ ہے۔
اسرائیل کے وزیر خارجہ یائر لاپڈ نے یروشلم میں چاوش اولو کے ساتھ ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ ہمارا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی اور شہری تعاون کو تشکیل دینا اور اس میں توسیع ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ممالک کو، علاقائی اور عالمی سطح پر ان تقابلی فوائد سے جو انہیں عالمی وبائی مرض کرونا وائرس اور سیاسی تناؤ کے دوران بھی میسر رہے ہیں، لوگوں کوفیض یاب کرنا ہے۔‘
لاپڈ اور چاوش اولو نے مزید کہا کہ شہری ہوابازی کے حکام شہری ہوا بازی کے ایک نئے معاہدے پر کام شروع کریں گے۔
ترکی اور اسرائیل ، دونوں ملکوں کے درمیان طویل عرصے سے جاری کشیدگی میں کمی لانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، جن میں امکانی طور پر توانائی کا شعبہ ایک اہم معاملے کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔
SEE ALSO: اسرائیلی صدر کا دورۂ ترکی: ’ایردوان کی خارجہ پالیسی میں اعتدال آرہا ہے‘دونوں ملکوں نے 2018 میں ایک دوسرے کے سفیروں کو اپنے ملکوں سے بلا لیا تھا اور فلسطین تنازع پر ان کے درمیان سخت بیانات کا تبادلہ ہوتا رہا تھا۔
چاوش اولو نے کہا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے تعلقات کو معمول پر لانے سے تنازع کے پرامن حل پر بھی مثبت اثر پڑے گا۔ ترکی بات چیت کی کوششوں کو جاری رکھنے کی ذمہ داری قبول کرنے پر تیار ہے‘۔
چاوش اولو نے بدھ کے روز مسجد اقصیٰ کا دورہ بھی کیا۔ یہ مسلمانوں کے لیے تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ رمضان المبارک کے دوران یہاں کئی بار اسرائیلی پولیس اور فلسطینیوں کے درمیان جھڑپیں ہو چکی ہیں۔ ترک وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس حوالے سے بھی اپنے اسرائیلی ہم منصب سے بات کی ہے۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امریکہ کی ثالثی میں ہونے والے امن مذاکرات جن کا مقصد مشرقی یروشلم، مغربی کنارے اور غزہ میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام تھا، 2014 میں ختم ہو گئے تھے اور اس کے بعد سے دونوں فریقوں کے درمیان سنجیدہ نوعیت کی بات چیت نہیں ہوئی ہے۔