اسرائیل اِسی سال تین بار شام پر فضائی حملے کرچکا ہے، جن کا مقصد حزب اللہ کے لبنانی گروہ کو اپنی سرحد کے قریب میزائل لانے سے روکنا تھا
واشنگٹن —
اسرائیل کے وزیر دفاع نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ اُس کی فوج روس کی طرف سے سمندری جہازوں کے ذریعے شام کو بھیجی جانے والی جدید ہتھیاروں کی کمک پر حملے کی تیاری کر رہا ہے۔
یورپی یونین کی طرف سے باغیوں کو اسلحہ فراہم کرنے پر عائد پابندی کو ہٹائے جانے کے اعلان کے چند ہی گھنٹوں کے اندر اندر روس نے کہا ہے کہ وہ حکومت شام کو اپنا جدید طیارہ شکن میزائل نظام روانہ کرے گا، جس کے بعد اس بات کا خدشہ بڑھ گیا ہے کہ اگلے ماہ جنیوا کے امن مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں علاقے میں لڑائی میں تیزی آ سکتی ہے۔
اسرائیل نے محتاط انداز میں یہ انتباہ جاری کیا ہے کہ اگر شام کو روسی ساخت کے ایس 300 میزائل روانہ کیے گئے، تو وہ اُن پر بم حملے کرے گا، ایسے میں جب جدید میزائلوں کی یہ کھیپ پرواز کرنے والے اسرائیلی سویلین اور فوجی طیاروں کے نشانے پر آجائے گی۔
اسرائیل اِس سال شام پر تین فضائی حملے کر چکا ہے، جن کا مقصد حزب اللہ کے لبنانی گروپ کی طرف سے اپنی سرحد کے قریب میزائل لانے سے روکنا ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع، موشے یعلون نے کے الفاظ میں: ’سمندر سے بھیجی جانے والی یہ کھیپ ابھی روانہ نہیں ہوئی، اور مجھے امید ہے کہ یہ روانہ نہیں ہوگی‘۔
’لیکن، اگر، خدا نخواستہ، یہ شام پہنچتی ہے تو ہم سوچیں گے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔‘
روس کے معاون وزیر دفاع، سرگئی ریابکوف نے اِس بات کی دلیل دی کہ ایس 300قسم کے
میزائل نظام کی رسد کے بارے میں پہلے ہی شام کے ساتھ اتفاق ہو چکا تھا اور یہ کہ یہ استحکام کا ایک عنصر ثابت ہوگا، جس کے بعد، اُن کے بقول، ’چند جوشیلے‘ اِس تنازع کا رُخ کرنے سے باز رہیں گے۔
بظاہر، اس سے مراد برطانیہ اور فرانس سے لی جارہی ہے، جنھوں نے پیر کے دِن یورپی یونین کی طرف سے اسلحے کی فراہمی پر لگی پابندی کو ہٹانے کی وکالت کی، اور جو اُن یورپی ممالک میں شامل ہیں جو ’فری سیرئن آرمی‘ کو ہتھیار فراہم کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
تاہم، برطانیہ اور فرانس کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے ابھی تک ہتھیار بھیجنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا، اور یہ کہ جنیوا امن مذاکرات کے بعد ہی ایسا کوئی فیصلہ کیا جائے گا، جس کا اجلاس جون کی وسط میں متوقع ہے۔
برطانیہ کے وزیر دفاع ولیم ہیگ کے بقول، ’ہم نے یہ کہا ہے کہ ہمارا خیال یہ ہے کہ اس مرحلے پر جب ہم جنیوا کانفرنس کی تیاری کر رہے ہیں، ہم کسی کو اسلحہ روانہ کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کر رہے‘۔
یورپی یونین کی طرف سے باغیوں کو اسلحہ فراہم کرنے پر عائد پابندی کو ہٹائے جانے کے اعلان کے چند ہی گھنٹوں کے اندر اندر روس نے کہا ہے کہ وہ حکومت شام کو اپنا جدید طیارہ شکن میزائل نظام روانہ کرے گا، جس کے بعد اس بات کا خدشہ بڑھ گیا ہے کہ اگلے ماہ جنیوا کے امن مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں علاقے میں لڑائی میں تیزی آ سکتی ہے۔
اسرائیل نے محتاط انداز میں یہ انتباہ جاری کیا ہے کہ اگر شام کو روسی ساخت کے ایس 300 میزائل روانہ کیے گئے، تو وہ اُن پر بم حملے کرے گا، ایسے میں جب جدید میزائلوں کی یہ کھیپ پرواز کرنے والے اسرائیلی سویلین اور فوجی طیاروں کے نشانے پر آجائے گی۔
اسرائیل اِس سال شام پر تین فضائی حملے کر چکا ہے، جن کا مقصد حزب اللہ کے لبنانی گروپ کی طرف سے اپنی سرحد کے قریب میزائل لانے سے روکنا ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع، موشے یعلون نے کے الفاظ میں: ’سمندر سے بھیجی جانے والی یہ کھیپ ابھی روانہ نہیں ہوئی، اور مجھے امید ہے کہ یہ روانہ نہیں ہوگی‘۔
’لیکن، اگر، خدا نخواستہ، یہ شام پہنچتی ہے تو ہم سوچیں گے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔‘
روس کے معاون وزیر دفاع، سرگئی ریابکوف نے اِس بات کی دلیل دی کہ ایس 300قسم کے
میزائل نظام کی رسد کے بارے میں پہلے ہی شام کے ساتھ اتفاق ہو چکا تھا اور یہ کہ یہ استحکام کا ایک عنصر ثابت ہوگا، جس کے بعد، اُن کے بقول، ’چند جوشیلے‘ اِس تنازع کا رُخ کرنے سے باز رہیں گے۔
بظاہر، اس سے مراد برطانیہ اور فرانس سے لی جارہی ہے، جنھوں نے پیر کے دِن یورپی یونین کی طرف سے اسلحے کی فراہمی پر لگی پابندی کو ہٹانے کی وکالت کی، اور جو اُن یورپی ممالک میں شامل ہیں جو ’فری سیرئن آرمی‘ کو ہتھیار فراہم کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
تاہم، برطانیہ اور فرانس کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے ابھی تک ہتھیار بھیجنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا، اور یہ کہ جنیوا امن مذاکرات کے بعد ہی ایسا کوئی فیصلہ کیا جائے گا، جس کا اجلاس جون کی وسط میں متوقع ہے۔
برطانیہ کے وزیر دفاع ولیم ہیگ کے بقول، ’ہم نے یہ کہا ہے کہ ہمارا خیال یہ ہے کہ اس مرحلے پر جب ہم جنیوا کانفرنس کی تیاری کر رہے ہیں، ہم کسی کو اسلحہ روانہ کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کر رہے‘۔