ہفتے کی صبح اسرائیل کو مکمل طور پر حیرت کا سامنا کرنا پڑا جب حماس نے غزہ کی پٹی سے ملک پر ہزاروں راکٹ فائر کیے، جبکہ ایک ہزار سے زائد جنگجوؤں نے سینکڑوں افراد کو گولی مار کر ہلاک اور کم از کم 100 کو یرغمال بنا لیا۔
اسرائیلی فوجیوں نے جنوبی علاقوں میں چھپے ہوئے عسکریت پسندوں کے ساتھ شدید لڑائی شروع کی، جب فضائیہ نے غزہ میں تزویراتی اہداف کو نشانہ بنانا شروع کیا۔
پیر کی صبح تک، سرکاری اندازوں کے مطابق ہلاک ہونے والے اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کی تعداد 700 سے زیادہ تھی ، جو کہ ایک کروڑ سے کم آبادی والے ملک کے لیے ایک بہت بڑی تعداد ہے۔
اسرائیل کے فوجی اور انٹیلی جنس کے آلات پر حماس نے مکمل قبضہ کر لیا تھا جس کے نتیجے میں کئی عشروں میں پہلی بار سڑکوں پر سخت لڑائیاں ہوئیں۔
’نوشتہٴ دیوار‘
تل ابیب یونیورسٹی کے دیان سینٹر میں فلسطینی اسٹڈیز فورم کے سربراہ مائیکل ملشٹین کا کہنا ہےکہ اس صورتحال سے ظاہر ہوتا ہے کہ "ہم نے حماس کو مکمل طور پر غلط سمجھا"۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، "معاشی ترغیبات کا یہ تصور کہ وہ حماس کی دہشت گردی کے لیے حوصلہ افزائی کو کم کر دے گا اور یہاں تک کہ عوام کے اس کے خلاف جانے کا باعث بنے گا، مکمل طور پر پارہ پارہ ہو گیا ہے"
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا۔ " آپ ایک بنیاد پرست، نظریاتی تنظیم کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ کیا آپ واقعی سوچتے ہیں کہ آپ ان کے نظریے کو خرید سکتے ہیں؟ اسے جھکا سکتے ہیں؟ یہ سراسر غلط فہمی ہے، اور شاید اس میں خود اپنی خواہش بھی شامل ہے۔ "
جبکہ ہم سمجھتے تھے کہ ایک بنیاد پرست ادارہ جو طاقت حاصل کرتا ہے آہستہ آہستہ اعتدال پسند ہوتا جاتا ہے، وہ طاقت حاصل کر رہے تھے اور اپنی جنگ کے اگلے مرحلے کی تیاری کر رہے تھے۔"
SEE ALSO: حماس کا بڑا حملہ: اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیاں کیوں ناکام ہوئیں؟ملشٹین نے، جوایک ریٹائرڈ انٹیلی جنس افسر ہیں اورفلسطینی شہری امور کے لیے ذمہ دار اسرائیلی دفاعی ادارے COGAT کے مشیر تھے، کہا کہ حماس کی قیادت سنیچر کی طرح ہی حملہ کرنے کے اپنے ارادے کا کھلے عام دعویٰ کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ "آپریشن کی منصوبہ بندی تقریباً ایک سال کے لیے کی گئی تھی، جو کہ حیرت انگیز ہے کیونکہ یہ ایک ایسا سال ہے جس میں اسرائیل نے لیبر پرمٹ اور رعایتوں میں اضافہ کیا تھا۔"
ملشٹین نے کہا، "اسرائیل کا تصور یہ تھا کہ حماس کوئی اضافہ نہیں چاہتی۔" "یہ نوشتئہ دیوار تھا۔ وہ صرف ماننا نہیں چاہتے تھے کہ یہ سچ ہے۔"
حماس کے خلاف اسرائیل کا وسیع تر موقف مکمل طور پر ناقص تھا
اسرائیل کے قومی سلامتی کےایک سابق مشیر ریٹائرڈ فوجی جنرل یاکوف امدرور نے کہا، "یہ انٹیلی جنس نظام اور جنوب میں فوجی آلات کی بہت بڑی ناکامی ہے۔" لیکن اچھی طرح سے منظم حملے کا پتہ لگانے میں اسرائیل کی انٹیلی جنس سروسز کی آپریشنل ناکامی اور فوج کی جانب سے اسے روکنے میں ناکامی کے علاوہ، حماس کے خلاف اسرائیل کا وسیع تر موقف مکمل طور پر ناقص تھا۔
انہوں نے صحافیوں کو بتایا، "مجھ سمیت ہم سب نے ایک بہت بڑی غلطی کی، یہ ماننے میں کہ ایک دہشت گرد تنظیم اپنا ڈی این اے بدل سکتی ہے۔" "ہم نے دنیا بھر کے اپنے دوستوں سے سنا ہے کہ وہ زیادہ ذمہ داری سے برتاؤ کر رہے ہیں، اور ہم نے اس پراحمقانہ طور پر یقین کر لیا"
یروشلم انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجی اینڈ سیکیورٹی کے ایک سینئر فیلو نے کہا 'سب حماس کو اسرائیل، امریکہ اور یورپی یونین ایک دہشت گرد گروپ تصور کرتے ہیں۔ اس گروپ نے 2007 میں فلسطینی صدر محمود عباس کے وفاداروں کو بے دخل کرنے کے بعد سے مفلسی کی شکار غزہ کی پٹی پر کنٹرول کیا ہے۔
اسےاسرائیل کے وہاں سے انخلا کے دو سال بعد اخوان المسلمون تنظیم کے قریبی عسکریت پسندوں کے ایک گروپ کے ذریعہ 1987 میں تشکیل دیا گیا۔ اس کے چارٹر میں فلسطینی علاقوں میں اسلامی ریاست کا مطالبہ کیا گیا ہے اور اس گروپ نے سماجی بہبود کے اسکولوں پر توجہ مرکوز کرنے والے امدادی پروگرام ترتیب دیے ہیں۔
SEE ALSO: اسرائیلی وفد کی سعودی عرب آمد: کیا دونوں ملکوں کے تعلقات معمول پرآنے والے ہیں؟اسرائیل کی غلط فہمی
ہفتہ کے حملے سے پہلے، اسرائیل نے غزہ کے عسکریت پسندوں کے ساتھ چار جنگیں لڑی تھیں، آخری جنگ 2021 میں ہوئی تھی۔ ان جنگوں میں اسرائیل نےحماس کی فوجی صلاحیتوں کو تباہ کرنے کی کوشش میں تباہ کن فضائی حملے کئے، جب کہ عسکریت پسندوں نے سرحد پار راکٹوں کی بارش کی۔
قدرے امن حاصل کرنے کی کوشش میں، اسرائیل نے حال ہی میں غزہ کے لوگوں کے لیے کام اور تجارتی اجازت ناموں میں اضافہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں تقریباً ساڑھے 18ہزار مزدوروں کو گنجان آباد ساحلی علاقے میں نمایاں آمدنی فراہم کی گئی تھی جہاں تقریباً نصف آبادی بے روزگار ہے۔
اسرائیل کا خیال تھا کہ اقتصادی ترغیبات سے، حماس کو تشددسے روک سکے گا۔
SEE ALSO: فلسطینیوں کے حقوق، دو ریاستی حل کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا: محمود عباساس ماہ کے شروع میں، اسرائیل کے قومی سلامتی کے مشیر زاچی ہنیگبی نے کہاتھا کہ گزشتہ دو برسوں سے حماس نے "بے مثال" طریقے سے تشدد کو روکنے کے اپنے فیصلے کے تحت، کوئی راکٹ لانچ نہیں کیا ہے۔
انہوں نے یکم اکتوبر کو آرمی ریڈیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، "حماس بہت محدود ہے، اور مزید خلاف ورزی کا مطلب سمجھتی ہے۔" '
ہفتے کے روز، اسرائیل کے وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے کہا کہ جب وہ 2009 میں فوج کی جنوبی کمان کے سربراہ تھے، تو وہ حماس کی "کمر توڑنا" چاہتے تھے لیکن سیاسی قیادت نے انہیں روک دیا۔
اب، وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ مل کر جنگ کے راستے کا تعین کرنے والے شخص کے طور پر، گیلنٹ کو مزید پابندیوں کا سامنا نہیں ہے۔ "ہم غزہ میں زمینی حقیقت کو بدل دیں گے"۔ "جو پہلے تھا، اب نہیں رہے گا۔"