اسرائیل کے فضائی حملے میں لبنان کی مسلح ملشیا حزب اللہ کے ایک بڑے کمانڈر کی ہلاکت کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں ایک اور مسلح تنازع کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
لبنان کے سیکیورٹی عہدے دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ پیر کو اسرائیل نے سرحدی علاقوں میں کام کرنے والی حزب اللہ کی ایک خفیہ فورس کی گاڑی کو نشانہ بنایا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق حزب اللہ نے اسرائیلی حملے میں ہلاک ہونے والے جنگ جو کمانڈر کی شناخت وسام الطویل کے نام سے کی ہے۔ تاہم اس بارے میں مزید تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔ وسام الطویل سات اکتوبر کو حماس کے حملے بعد اسرائیل کی جانب سے ہلاک کیے گئے سب سے سینئر جنگ جو کمانڈر ہیں۔
گزشتہ برس سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد غزہ میں جاری جنگ کے بعد سے اسرائیل اور لبنان کے سرحد پر بھی کشیدگی میں اضافہ ہو گیا تھا۔
ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ اور اسرائیلی فورسز کے درمیان گولہ باری کا تبادلہ جاری رہا ہے۔ تاہم گزشتہ ہفتے بیروت میں حماس کے ایک کمانڈر کی ہلاکت کے بعد سرحدی جھڑپوں میں شدت دیکھی گئی ہے۔
امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے گزشتہ ہفتے مشرقِ وسطیٰ کا دورہ کیا تھا جس میں وہ بظاہر غزہ میں شروع ہونے والی جنگ کو خطے میں پھیلنے سے روکنے کی کوششوں میں مصروف رہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ شمالی غزہ میں اپنی کارروائیاں مکمل کر چکا ہے اور اب اس کی توجہ وسطی غزہ اور شمالی شہر خان یونس کی جانب مرکوز ہے۔
اسرائیلی حکام کہہ چکے ہیں کہ حماس کے مکمل خاتمے اور اس کی جانب سے سات اکتوبر کے حملوں میں یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کی واپسی تک لڑائی جاری رہے گی جس میں مزید کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔
حماس کے زیرِ انتظام غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق غزہ میں جاری لڑائی کے دوران اندازاً 23 ہزار فلسطینی ہلاک اور 58 ہزار زخمی ہو چکے ہیں۔
وزارتِ صحت کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں دو تہائی خواتین اور بچے شامل ہیں۔ ان اعداد و شمار میں جنگ جو اور عام شہریوں کی علیحدہ علیحدہ تعداد نہیں بتائی جاتی۔
'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق غزہ کی پٹی کی 23 لاکھ سے زائد آبادی میں سے 85 فی صد غزہ کے اندر ہی نقل مکانی کر چکی ہے۔ غزہ کی ایک چوتھائی آبادی کو اس وقت غذا کی شدید قلت کا بھی سامنا ہے جب کہ مختلف امدادی اداروں کے مطابق غزہ میں طبی امداد کی فراہمی کا انتظام بھی ناکافی ہے۔
جنگ کو پھیلنے سے روکنے کی کوشش
امریکہ کے وزیرِ خارجہ نے اتوار کو اردن اور قطر کے رہنماؤں سے ملاقاتوں میں ایک بار پھر اسرائیل پر زور دیا کہ وہ اپنی فوجی کارروائیوں میں شہریوں کو پہنچنے والے نقصانات کو محدود کرے اور غزہ میں زیادہ سے زیادہ امداد لے جانے کی اجازت دے۔
تاہم اس دوران انہوں نے غزہ میں جاری جنگ کو خطے میں پھیلنے سے روکنے کے لیے کوششوں پر زیادہ توجہ مرکوز رکھی۔
گزشتہ ہفتے کو حزب اللہ نے شمالی اسرائیل میں ایک حساس ایئر ٹریفک بیس کو نشانہ بنایا تھا۔ یہ تین ماہ سے بارڈر پر جاری جھڑپوں کے دوران حزب اللہ کی جانب سے اسرائیل پر کیا گیا سب سے بڑا حملہ تھا۔
حزب اللہ نے اپنے بیان میں اس کارروائی کو گزشتہ ہفتے بیروت میں حماس کے نائب سیاسی لیڈر صالح العاروری کی ہلاکت کے خلاف ’ابتدائی ردِ عمل‘ قرار دیا تھا۔
SEE ALSO: اسرائیل حماس جنگ کو پھیلنے سے روکنے کی کوشش، بلنکن کی عرب رہنماؤں سے ملاقاتیںاسرائیل لڑائی کو شمال میں محدود رکھنے کا عزم ظاہر کرتا رہا ہے تاہم اس کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ اگر کشیدگی سفارتی کاری سے ختم نہیں ہوتی تو وہ جنگ کے لیے تیار ہیں۔
اسرائیلی قیادت حزب اللہ کے سرحدی علاقوں میں فعال یونٹ ’رضوان فورس‘ کے بارے میں خصوصی خدشات ظاہر کرتی آئی ہے۔ پیر کو ہلاک ہونے والے وسام الطویل اسی یونٹ کے کمانڈر تھے۔
سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے آغاز کے فوری بعد حزب اللہ نے سرحد پر راکٹ فائر کرنا شروع کردیے تھے۔ جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے میں تقریباً 1200 اسرائیلی ہلاک ہو گئے تھے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ اس حملے میں حماس نے 250 اسرائیلیوں کو یرغمال بنا لیا تھا جن میں سے 100 سے زائد افراد کو حماس نے نومبر میں ہونے والی عارضی جنگ بندی کے دوران رہا کر دیا تھا۔
حزب اللہ واضح کر چکی ہے کہ جنوبی اسرائیل میں اس کے حملوں کا مقصد غزہ میں اسرائیلی فورسز کا دباؤ کم کرنا ہے۔ ان حملوں کے باعث جنوبی اسرائیل کے ہزاروں شہری نقل مکانی کر چکے ہیں۔
تاہم ان کارروائیوں کے باوجود حزب اللہ لبنان کی مکمل تباہی کے خدشات کے پیشِ نظر اسرائیل کے خلاف باضابطہ جنگ کا آغاز کرنے سے گریز کر رہی ہے۔
اس خبر کے لیے معلومات ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔