امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے اردن اور قطر میں عرب رہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں جن میں غزہ میں اسرائیل کی حماس کے خلاف جاری جنگ کو خطے میں پھیلنے سے روکنے پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔
امریکی وزیر خارجہ کی ملاقاتیں خطے کے دورے کا حصہ ہیں جس کا مقصد اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے بارے میں ان خدشات کو دور کرنا ہے کہ یہ تنازع مشرق وسطیٰ میں قابو سے باہر ہو سکتا ہے۔
اردن کے شاہ عبداللہ اور قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کے ساتھ ملاقاتوں میں امریکی وزیرِ خارجہ نے غزہ میں اسرائیلی حماس جنگ کے دوران شہریوں کی ہلاکتوں کو روکنے اور فلسطینیوں تک پہنچنے والی امداد میں نمایاں اضافہ کرنے کی ضرورت پر بات چیت کی۔
بلنکن خطے کا دورہ ایسے وقت میں کر رہے ہیں جب گزشتہ سال سات اکتوبر کو شروع ہونے والی اسرائیل اور حماس کی جنگ کو غزہ کی پٹی تک محدود کرنے کے لیے مغربی اور علاقائی طاقتوں کی اجتماعی کوششوں کے باوجود وسیع تر علاقائی تنازعے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔
ایک طرف تو حالیہ دنوں میں اسرائیل اور لبنان کی ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا حزب اللہ کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔ دوسری طرف یمن کے وسیع حصے پر قابض حوثی باغیوں نے بحیرۂ روم میں بحری جہازوں پر حملے تیز کر دیے ہیں۔
خطے میں صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے بلنکن نے ہفتے کے روز کہا تھا کہ حقیقی تشویش کا ایک حصہ اسرائیل اور لبنان کے درمیان سرحد ہے اور ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا چاہتے ہیں کہ ہمیں وہاں کسی قسم کی کشیدگی نظر نہ آئے۔
انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ اسرائیل کو کشیدگی میں واضح طور پر کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ "کسی بھی طرح کی کشیدگی میں اضافہ لبنان کے مفاد میں نہیں ہے۔"
خیال رہے کہ کہ امریکہ نے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کے لیے دیرپا امن اور سلامتی پر زور دیا ہے۔
اس میں فلسطینیوں کے سیاسی حقوق کا حصول شامل ہے جن میں اسرائیل کے لیے سلامتی کی یقین دہانیوں کے ساتھ ایک فلسطینی ریاست کا قیام بھی شامل ہے۔
تاہم امریکہ نے تین ماہ سے جاری لڑائی کو روکنے کے لیے جنگ بندی کے عرب مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے اسرائیل کی حمایت جاری رکھی ہے۔
اسرائیل اور امریکہ کا خیال ہے کہ جنگ بندی صرف حماس کو اسرائیلی افواج کے خلاف اپنی لڑائی میں دوبارہ منظم ہونے کے قابل بنائے گی۔
عالمی سطح پر غزہ میں فلسطینی شہریوں کی بڑی تعداد میں ہلاکتوں اور انسانی بحران پر گہری تشویش پائی جاتی ہے اور اقوامِ متحدہ نے بار ہا محصور علاقے میں جنگ بندی پر زور دیا ہے۔
دوسری جانب اسرائیل نے اس وقت تک جنگ جاری رکھنے کا عزم کیا ہے جب تک اسے یقین نہ ہو کہ حماس کے مستقبل کے حملوں کا خطرہ ختم ہو گیا ہے اور حماس بحیرہ روم کے ساتھ ساحلی پٹی غزہ پر مزید کنٹرول نہیں رکھتی۔
اردن کے سرکاری طور پر جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ شاہ عبد اللہ نے حماس کے خلاف غزہ میں اسرائیل کی جنگ کے تباہ کن نتائج کے بارے میں خبردار کیا جب کہ امریکہ سے فوری جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا۔
عمان میں بلنکن نے عالمی ادارہ برائے خوراک (ورلڈ فوڈ پروگرام) کے ایک گودام کا بھی دورہ کیا جہاں غزہ میں قحط زدہ فلسطینیوں کے لیے امداد سے لدے ٹرک موجود ہیں۔
بلنکن نے کہا کہ ضرورت مند لوگوں تک خوراک کی رسائی کی کوشش ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ پہلے دن سے غزہ میں شہریوں تک امداد کی پہنچانے کے راستے کھولنے کے لیے کام کر رہا ہے۔
قبل ازیں امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان کے ساتھ استنبول میں ملاقات کی اور پھر کریٹ میں یونانی وزیرِ اعظم کیریاکوس میتسوتاکس کے ساتھ ملاقات کی۔
واشنگٹن ڈی سی میں محکمۂ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ بلنکن نے بحیرۂ احمر میں جہازوں کی آزادانہ نقل و حرکت کے لیے یونان کے عزم کی تعریف کی۔ یہ خاص طور پر اہم ہے کیوں کہ یمن کے حوثی حماس کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے سمندر میں جہازوں پر حملے کر رہے ہیں۔
اسرائیل نے گزشتہ سال سات اکتوبر کو حماس کے جنگجوؤں کے جنوبی علاقے میں داخل ہو کر حملہ کرنے کے بعد حماس کا صفایا کرنے کے لیے اپنی فوجی مہم شروع کی تھی۔
اسرائیلی حکام کے مطابق حماس کے اس حملے میں 1200 لوگ ہلاک ہوئے تھے جب کہ جنگجو 240 افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ بعد ازاں ان میں سے زیادہ تر خواتین اور بچوں کو ایک ہفتے کی جنگ بندی کے دوران رہا کر دیا گیا تھا۔ رپورٹس کے مطابق اب بھی 130 مغوی حماس کی تحویل میں ہیں۔
غزہ میں حماس کے زیرآ انتظام محکمۂ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی فوج کی کارروائی میں 22 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں اداروں ایسوسی ایٹڈ پریس اور رائٹرز سے لی گئی ہیں۔