|
" ہم اسرائیلیوں سے جو کچھ بھی کہتے ہیں وہ اس کا ایک لفظ بھی نہیں سنتے ۔۔ وہ اپنے منصوبے پر عمل پیرا ہیں اور ہماری بات نہیں سنتے۔" یہ بات ایک یورپی سفارت کارنے رائٹرز سے کہی ہے۔
لبنان میں حزب اللہ کے قریبی سیکیورٹی ذرائع اور سفارت کاروں نے بتایا ہے کہ گروپ نے اس ہفتے کے حملے سے قبل ،جس میں ایک اعلیٰ کمانڈر مارا گیا تھا ،بیروت کے مضافاتی علاقوں میں اپنے حساس مقامات کو خالی نہیں کیا تھا اور نہ ہی اعلیٰ عہدیداروں کو وہاں سے نکالا تھا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ امریکی زیر قیادت سفارت کاری اسرائیل کو علاقے پر حملہ کرنے سے روکے گی ۔
ذرائع نے بتایا کہ حزب اللہ کا تاثر یہ تھا کہ اسرائیل جنوبی مضافاتی علاقوں یا دحیہ کو نشانہ نہیں بنائے گا، جو کہ شیعہ مسلم گروپ کی حمایت کا مرکز ہے، کیونکہ اس کا خیال تھا کہ اسرائیلی افواج ان غیر سرکاری ریڈ لائنز کا احترام کریں گی، جن کا دونوں فریقوں نے اس تنازعے میں ،جو غزہ کی جنگ کے دوران بڑھ گیا تھا ،عمومی طور پر احترام کیا تھا ۔
یہ تجزیہ رائٹرز کو واشنگٹن کی زیر قیادت اور فرانس او ر اقوام متحدہ کی شمولیت سے ہونے والی ثالثی کی حالیہ کوششوں کا علم رکھنے والے آٹھ سفارت کاروں اورحزب اللہ کے سیکیورٹی کے تین ذرائع نے پہنچائی ۔ ان سب نے موضوع کی حساس نوعیت کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی۔
یہ افہام و تفہیم منگل کو اس وقت ٹوٹ گئی جب بیروت کے علاقے دحیہ پر ایک اسرائیلی حملے میں حزب اللہ کے اعلیٰ فوجی کمانڈر، ایک ایرانی فوجی مشیر اور پانچ عام شہری ہلاک ہو گئے۔ لبنانی حکام اور حزب اللہ اب سوال کر رہے ہیں کہ آیا گروپ کو سفارتی یقین دہانیاں درست طریقے سے پہنچائی گئی تھیں۔
لبنان کے وزیر خارجہ عبداللہ بو حبیب نے رائٹرز کو بتایا کہ "ہمیں ان سے بیروت کو نشانہ بنانے کی توقع نہیں تھی اور انہوں نے بیروت کو نشانہ بنایا۔"
تہران میں فلسطینی مسلح گروپ حماس کے سربراہ اسماعیل حنیہ کے قتل کے چند گھنٹے بعد سے ہی پورے خطےکو افرا تفری کے ایک پر تشدد سلسلے میں دھکیلے جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کشیدگیوں کی شروعات 27 جولائی کو اسرائیل کے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں پر اس مہلک حملے کے بعد ہوئی جس کا الزام اسرائیل نے حزب اللہ پر عائد کرتے ہوئے جوابی کارروائی کا عزم کیا۔ گروپ نے کسی قسم کے ملوث ہونے سے انکار کیا۔
کئی سفارت کاروں اور ثالثی کی کوششوں کے بارے میں براہ راست علم رکھنے والے ایک لبنانی اہلکار نے رائٹرز کو بتایا کہ سفارت کاروں نے اسرائیل پر زور دیا تھا کہ وہ اپنی جوابی کارروائیوں کے سلسلے کے طور پر دحیہ پر حملہ نہ کرے، امریکی ایلچی آموس ہوچسٹین نے خاص طور پر ان پیغامات کو آگے بڑھایا۔
حزب اللہ کے ایک عہدےدار نے بتایا کہ ثالثوں نے انہیں ایسی کوششوں سے مطلع کیا تھا۔ پیغام رسانی میں شامل لبنانی اہلکار اور تین سفارت کاروں نے کہا کہ اسرائیل نے کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔
SEE ALSO: اسماعیل ہنیہ کے کمرے میں دھماکہ خیز مواد دو ماہ پہلے نصب کیا گیا تھا: نیویارک ٹائمز'سفارت کاری ناکام ہو گئی ہے'
تاہم پھر بھی حزب اللہ کے روئیے نے اپنی جانب سے پر سکون رہنے کا سگنل دیا ۔حملے سے قبل کے دنوں میں، گروپ کے اعلیٰ عہدیداروں کو دحیہ کے ارد گرد گھومتے پھرتے دیکھا گیا تھا ۔
دو سیکورٹی ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ حزب اللہ نے ممکنہ حملوں کے پیش نظر جنوبی اور مشرقی لبنان میں اپنے کچھ اہم مقامات کو خالی کر دیا تھا، لیکن بیروت میں ایسے اقدامات نہیں کیے تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ نشانہ بننے والی عمارت کے قریب رہنے والے حزب اللہ کے ارکان کو حملے کے بعد افرا تفری کے عالم میں فوری طور پر عمارت سے باہر نکالا گیا ۔
ایک علاقائی سفارت کار نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ اسرائیل کے پاس جنوب یا مشرقی لبنان میں حزب اللہ کو نشانہ بنانے کے لیے کوئی بڑے اہداف نہیں تھے ۔
دو یورپی سفارت کاروں نے کہا کہ حزب اللہ نے بیروت میں حفاظتی اقدامات نہیں کیے تھے اور "محتاط نہیں تھے"۔ انہوں نے کہا کہ ، اس کی بجائے اسرائیل نے اپنی جوابی کارروائی کو محدود رکھنے کی کوششوں سے گریز کیا ۔
SEE ALSO: وائٹ ہاؤس: کشیدگی کے دوران، تہران اور بیروت میں حملے 'مددگار نہیں ہیں'مغربی ایلچی اور ایک ایرانی اہلکار نے کہا کہ اسرائیل نے دحیہ پر حملہ کر کے ’سرخ لکیریں عبور کر لی ہیں، سفارت کاری ناکام ہو چکی ہے۔‘‘ ایلچی نے رائٹرز کو بتایا کہ ملکوں ، حتیٰ کہ امریکہ تک کی ، اسرائیل پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت محدود ہے،
حزب اللہ کے رہنما سید حسن نصر اللہ نے جمعرات کے روز مقتول کمانڈر فواد شکر کی نماز جنازہ کے موقع پر ایک تقریر میں کہا کہ اسرائیل "یہ نہیں جانتا کہ اس نے سرخ لکیر کو کس حد تک عبور کیا ہے" اور یہ کہ نامعلوم ملکوں نے گروپ سے کہا ہے کہ وہ اس حملے کا جواب نہ دیں۔ ، وہ درخواست جسے انہوں نے مسترد کر دیا ہے ۔
اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔