اسرائیلی فورسز نے غزہ کے وسطی اور جنوبی علاقوں میں شدید بمباری کی ہے جس کے بعد متاثرہ علاقوں میں مقیم ہزاروں افراد کو اسرائیل کی جانب مزید حملوں کا خطرہ ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق غزہ کی وزارتِ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے جمعرات کی شب خان یونس کے علاقے میں ایک گھر کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں آٹھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
فلسطینی ہلالِ احمر کے مطابق اسرائیل کی جانب سے وسطی غزہ کے مغازی کیمپ پر میزائل حملے میں تین فلسطینی ہلاک اور چھ زخمی ہوئے ہیں۔
اسی طرح اسرائیلی فورسز نے مصر کی سرحد سے متصل رفح کے علاقے میں حملے کیے جن میں غزہ کی وزارتِ صحت کے ترجمان اشرف القدرہ کے مطابق 20 افراد ہلاک اور 55 زخمی ہوئے ہیں۔ مقامی افراد اور صحت کے عملے کے مطابق بم ان عمارتوں پر برسائے گئے جہاں سویلین پناہ لیے ہوئے تھے۔
اسرائیلی وزیرِ دفاع یواو گیلنٹ نے خان یونس میں جاری حملوں سے متعلق کہا ہے کہ غزہ میں کارروائی کا مقصد حماس کو ختم کرنا ہے تاکہ اس کی عسکری اور حکومتی صلاحیت برقرار نہ رہ سکے۔
SEE ALSO: مشرقِ وسطیٰ میں جنگ پھیلنے کا خطرہ، صدر بائیڈن کے لیے بڑا چیلنجمیڈیا بریفنگ کے دوران یواو گیلنٹ نے کہا کہ ہمیں اس لڑائی کے دوران بہت عزم اور استقامت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہو گی۔
ایک فلسطینی صحافی نے وسطی غزہ کے علاقے بریج میں ایک مسجد کے قریب اسرائیلی ٹینکوں کی تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی ہے۔
دوسری جانب حماس نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں جنگجوؤں کی جانب سے بریج کے علاقے میں اسرائیلی ٹینکوں اور اہلکاروں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔
'رائٹرز' کے مطابق حماس کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو کے مقام اور تاریخ کی آزادانہ ذرائع سے تصدیق نہیں کی جاسکتی۔
اسرائیلی فوج کی تصدیق کی ہے کہ غزہ میں زمینی کارروائی کے دوران اب تک 169 فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔
SEE ALSO: اسرائیلی حملے میں جنرل موسوی کی ہلاکت کا بدلہ لیا جائے گا، قدس فورسواضح رہے کہ حماس کے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملے میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ جنگجو 240 افراد کو یرغمال بنا کر غزہ لے گئے تھے جن میں سے اب بھی کئی یرغمال حماس کی تحویل میں ہیں۔
فریقین کے درمیان انسانی بنیاد پر ہونے والی سات روزہ جنگ بندی کے دوران حماس نے قیدیوں کے بدلے 110 یرغمالوں کو رہا کر دیا تھا جب کہ 20 سے زائد یرغمالی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ میں شدت کے بعد غزہ کے مکینوں کے پاس کوئی محفوظ جگہ نہیں اور وہ جان بچا کر ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں جانے پر مجبور ہیں۔
ایک 60 سالہ متاثرہ شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر 'رائٹرز' کو بتایا کہ ان کے خاندان کے 35 افراد نقل مکانی پر مجبور ہیں اور اس کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔
یمن حامد شمالی غزہ سے نقل مکانی کے بعد وسطی غزہ پہنچے تھے جو دیر البلح میں ایک اسکول میں رہ رہے ہیں۔ ان کے بقول بریج اور نصیرت کے علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے ہر اس جگہ خیمے لگا کر رہنے پر مجبور ہے جہاں انہیں کھلا میدان نظر آتا ہے۔
(اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔)