انتخابات وقت سے پہلے کرانے کے مطالبے میں حکومت کے بجٹ میں بڑھتے ہوئے خسار ے کو بڑی اہمیت دی گئی تھی ، لیکن امید واروں نے انتخابی مہم میں اس مسئلے کو بڑی حد تک نظر انداز کر دیا ۔
یروشلم —
اسرائیل میں منگل کے روز کے قومی انتخابات کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ رائے عامہ کےجائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیرِ اعظم بنجامن نیتن یاہو کی لیکود پارٹی اور اس کی شراکت دار، دائیں بازو کی آور ہوم پارٹی کو اگلی حکومت بنانے کے لیے کافی ووٹ مل جائیں گے۔ لیکن رائے عامہ کے جائزوں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حال ہی میں بائیں بازو اور انتہائی دائیں بازو کی پارٹیوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے جس سے انتخابات کے نتائج متاثر ہو سکتے ہیں ۔
اسرائیل کے انتخاب کی مہم کے آخری دنوں میں، امیدوار پورے ملک کے دورے کر رہے ہیں اور لوگوں سے ووٹوں کی اپیل کر رہے ہیں۔
موجودہ وزیرِ اعظم بنجامن نیتن یاہو نے انتخابی مہم میں اپنی حکومت کے استحکام، عالمی لیڈروں میں اپنے اثر و رسوخ، اور ایران کے نیوکلیئر ہتھیاروں کے مبینہ پروگرام کی مخالفت پر زور دیا۔
انھوں نے کہا’’انھوں نے کہا کہ اپنے شہریوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اسرائیل نے خود کو مضبوط بنایا ہے اور اس مقصد کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔‘‘
مسٹر نیتن یاہو جانتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ کے امن مذاکرات میں تعطل کی وجہ سے فلسطینیوں میں مایوسی اور غصہ بڑھ رہا ہے، اور عرب دنیا میں جو سیاسی بے چینی پھیلی ہے اس کے نتیجے میں اسلام پسند لیڈروں کو عروج حاصل ہوا ہے جس پر اسرائیل کی تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے ۔
ملک بھر میں تقریباً 10,000 پولنگ اسٹیشنوں میں منگل کے روز 55 لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز ووٹ ڈالیں گے۔
اسرائیل کی پارلیمینٹ کی 120 نشستوں کے لیے 34 پارٹیوں نے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ لیکن ان میں نصف سے بھی کم کو کُل ووٹوں کے دو فیصد ووٹ ملیں گے۔ یہ وہ کم سے کم تعداد ہے جو پارلیمینٹ میں نشست کی اہلیت کے لیے ضروری ہے۔
وزیرِ اعظم کی لیکود پارٹی، سیکولر قوم پرست پارٹی اسرائیل آور ہوم کے ساتھ مل کر انتخاب لڑ رہی ہے ۔
لیکن حالیہ دنوں میں مذہبی قوم پرست پارٹی جیوش ہوم یا بیت یہودی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے ۔ یہ وہ پارٹی ہے جو دریائے اردن کے مغرب میں کسی بھی فلسطینی ریاست کی مخالف ہے۔ ان دونوں قوم پرست پارٹیوں نے لیکود اور کئی انتہائی مذہبی پارٹیوں کے ساتھ مل کر پچھلی حکومت بنائی تھی۔
ہیبرو یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر اووراھم ڈسکِن کہتے ہیں کہ مسٹر نیتن یاہو ایسی نئی حکومت بنانا چاہیں گے جس میں انہیں دائیں بازو پر زیادہ انحصار نہ کرنا پڑے۔’’مجھے پکا یقین ہے کہ نیتن یاہو اپنی مخلوط حکومت میں اعتدال پسند، اور بائیں بازو کی پارٹیوں کو شامل کرنا چاہیں گے ۔ جو پارلیمینٹ تحلیل ہوئی ہے، اس کے دور میں ان کا رویہ ایسا ہی تھا ۔‘‘
انتخابی مہم کے دوران، حزب اختلاف کی بائیں بازو کی اعتدال پسند پارٹیوں نے اپنی توجہ سماجی مسائل پر، عام زندگی کے بڑھتے ہوئے اخراجات پر، اور امیر اور غریب کے درمیان فرق پر مرکوز رکھی ہے ۔
لیبر پارٹی کی لیڈر شیلی یاچیمووچ حال ہی میں یروشلم کے کھلے بازار میں گئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ ایسی حکومت میں شامل ہو جائیں گی جو سماجی انصاف کو فروغ دے گی۔
خادما پارٹی جو سبکدوش ہونے والی نیتن یاہو کی حکومت سے پہلے اقتدار میں تھی، اب کئی گروپوں میں بٹ گئی ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق، اسے بس گنتی کی نشتیں ملیں گے ۔ دو نئی پارٹیاں، موومنٹ پارٹی، اور ’’دیئر اس اے فیوچر‘‘ پارٹی ، نیتن یاہو کی مخلوط حکومت میں شامل ہونا چاہتی ہیں، اگر ان کی بعض شرائط پوری کر دی جائیں ۔
ڈسکِن کہتے ہیں کہ ایک بڑا مسئلہ جس پر انتخابی مہم میں بالکل بات نہیں ہوئی ہے، وہ فلسطینیوں کے ساتھ امن مذاکرات کا ہے۔’’دوسرے ملکوں میں اصل اہمیت معیشت اور سماجی مسائل کی ہوتی ہے ۔ اسرائیل میں بھی یہ مسائل اہم ہیں اور ان کی وجہ سے 2011 میں بڑے بڑے اجتماعات ہوئے ۔ تا ہم، میرا خیال اب بھی یہی ہے کہ اہم ترین مسئلہ عرب اسرائیلی تنازع کا ہے۔‘‘
اسرائیلی کالم نگار ڈینی روبنسٹیئن کہتے ہیں کہ اگر مسٹر نیتن یاہو بائیں بازو کے اعتدال پسند عناصر کے ساتھ مخلوط حکومت بنا لیں، تو پھر وہ فلسطینیوں کی جانب زیادہ معتدل پالیسیاں اختیار کر سکیں گے۔
’’انہیں انتہائی دائیں بازو کو کچھ نہ کچھ تو دینا پڑے گا۔ لیکن جب نئی مخلوط حکومت کا سوال پیدا ہو گا، تو ان کی ترجیح یہ ہو گی کہ انہیں یہ نہ کرنا پڑے تا کہ فلسطینی مشتعل نہ ہوں، عرب دنیا مشتعل نہ ہو، اور اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ امریکہ مشتعل نہ ہو۔‘‘
کامل فوچس یونیورسٹی آف تل ابیب میں پولسٹر ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر حزبِ اختلاف کی پارٹیوں نے انتخابات میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کر لی تو مسٹر نیتن یاہو ان کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ ’’ تا ہم، اگر اس کے نتیجے میں کوئی نسبتاً کمزور مخلوط حکومت بنتی ہے تو پھر ممکن ہے کہ وہ دائیں بازو کے ساتھ مل کر ہی کام کرنے کا فیصلہ کریں ۔‘‘
فوچس کہتے ہیں کہ اگرچہ نیتن یاہو کے اتحاد کو رائے عامہ کے جائزوں میں سبقت حاصل ہے، پھر بھی اس بات کا امکان موجود ہے کہ بعد میں کسی وقت ووٹروں کی ترجیحات تبدیل ہو جائیں اور اس سے انتخاب کا نتیجہ متاثر ہو۔
انتخابات وقت سے پہلے کرانے کے مطالبے میں حکومت کے بجٹ میں بڑھتے ہوئے خسار ے کو بڑی اہمیت دی گئی تھی ، لیکن امید واروں نے انتخابی مہم میں اس مسئلے کو بڑی حد تک نظر انداز کر دیا ۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بجٹ میں خسارہ کم کرنے کے لیے ضروری ہو گا کہ اخراجات میں بھاری کمی کی جائے، اور شاید ٹیکس بھی بڑھانے پڑیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اگلی اسرائیلی حکومت کی تشکیل میں، بجٹ کے بارے میں مذاکرات کو اہم جگہ ملے گی ۔
اسرائیل کے انتخاب کی مہم کے آخری دنوں میں، امیدوار پورے ملک کے دورے کر رہے ہیں اور لوگوں سے ووٹوں کی اپیل کر رہے ہیں۔
موجودہ وزیرِ اعظم بنجامن نیتن یاہو نے انتخابی مہم میں اپنی حکومت کے استحکام، عالمی لیڈروں میں اپنے اثر و رسوخ، اور ایران کے نیوکلیئر ہتھیاروں کے مبینہ پروگرام کی مخالفت پر زور دیا۔
انھوں نے کہا’’انھوں نے کہا کہ اپنے شہریوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اسرائیل نے خود کو مضبوط بنایا ہے اور اس مقصد کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔‘‘
مسٹر نیتن یاہو جانتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ کے امن مذاکرات میں تعطل کی وجہ سے فلسطینیوں میں مایوسی اور غصہ بڑھ رہا ہے، اور عرب دنیا میں جو سیاسی بے چینی پھیلی ہے اس کے نتیجے میں اسلام پسند لیڈروں کو عروج حاصل ہوا ہے جس پر اسرائیل کی تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے ۔
ملک بھر میں تقریباً 10,000 پولنگ اسٹیشنوں میں منگل کے روز 55 لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز ووٹ ڈالیں گے۔
اسرائیل کی پارلیمینٹ کی 120 نشستوں کے لیے 34 پارٹیوں نے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ لیکن ان میں نصف سے بھی کم کو کُل ووٹوں کے دو فیصد ووٹ ملیں گے۔ یہ وہ کم سے کم تعداد ہے جو پارلیمینٹ میں نشست کی اہلیت کے لیے ضروری ہے۔
وزیرِ اعظم کی لیکود پارٹی، سیکولر قوم پرست پارٹی اسرائیل آور ہوم کے ساتھ مل کر انتخاب لڑ رہی ہے ۔
لیکن حالیہ دنوں میں مذہبی قوم پرست پارٹی جیوش ہوم یا بیت یہودی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے ۔ یہ وہ پارٹی ہے جو دریائے اردن کے مغرب میں کسی بھی فلسطینی ریاست کی مخالف ہے۔ ان دونوں قوم پرست پارٹیوں نے لیکود اور کئی انتہائی مذہبی پارٹیوں کے ساتھ مل کر پچھلی حکومت بنائی تھی۔
ہیبرو یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر اووراھم ڈسکِن کہتے ہیں کہ مسٹر نیتن یاہو ایسی نئی حکومت بنانا چاہیں گے جس میں انہیں دائیں بازو پر زیادہ انحصار نہ کرنا پڑے۔’’مجھے پکا یقین ہے کہ نیتن یاہو اپنی مخلوط حکومت میں اعتدال پسند، اور بائیں بازو کی پارٹیوں کو شامل کرنا چاہیں گے ۔ جو پارلیمینٹ تحلیل ہوئی ہے، اس کے دور میں ان کا رویہ ایسا ہی تھا ۔‘‘
انتخابی مہم کے دوران، حزب اختلاف کی بائیں بازو کی اعتدال پسند پارٹیوں نے اپنی توجہ سماجی مسائل پر، عام زندگی کے بڑھتے ہوئے اخراجات پر، اور امیر اور غریب کے درمیان فرق پر مرکوز رکھی ہے ۔
لیبر پارٹی کی لیڈر شیلی یاچیمووچ حال ہی میں یروشلم کے کھلے بازار میں گئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ ایسی حکومت میں شامل ہو جائیں گی جو سماجی انصاف کو فروغ دے گی۔
خادما پارٹی جو سبکدوش ہونے والی نیتن یاہو کی حکومت سے پہلے اقتدار میں تھی، اب کئی گروپوں میں بٹ گئی ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق، اسے بس گنتی کی نشتیں ملیں گے ۔ دو نئی پارٹیاں، موومنٹ پارٹی، اور ’’دیئر اس اے فیوچر‘‘ پارٹی ، نیتن یاہو کی مخلوط حکومت میں شامل ہونا چاہتی ہیں، اگر ان کی بعض شرائط پوری کر دی جائیں ۔
ڈسکِن کہتے ہیں کہ ایک بڑا مسئلہ جس پر انتخابی مہم میں بالکل بات نہیں ہوئی ہے، وہ فلسطینیوں کے ساتھ امن مذاکرات کا ہے۔’’دوسرے ملکوں میں اصل اہمیت معیشت اور سماجی مسائل کی ہوتی ہے ۔ اسرائیل میں بھی یہ مسائل اہم ہیں اور ان کی وجہ سے 2011 میں بڑے بڑے اجتماعات ہوئے ۔ تا ہم، میرا خیال اب بھی یہی ہے کہ اہم ترین مسئلہ عرب اسرائیلی تنازع کا ہے۔‘‘
اسرائیلی کالم نگار ڈینی روبنسٹیئن کہتے ہیں کہ اگر مسٹر نیتن یاہو بائیں بازو کے اعتدال پسند عناصر کے ساتھ مخلوط حکومت بنا لیں، تو پھر وہ فلسطینیوں کی جانب زیادہ معتدل پالیسیاں اختیار کر سکیں گے۔
’’انہیں انتہائی دائیں بازو کو کچھ نہ کچھ تو دینا پڑے گا۔ لیکن جب نئی مخلوط حکومت کا سوال پیدا ہو گا، تو ان کی ترجیح یہ ہو گی کہ انہیں یہ نہ کرنا پڑے تا کہ فلسطینی مشتعل نہ ہوں، عرب دنیا مشتعل نہ ہو، اور اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ امریکہ مشتعل نہ ہو۔‘‘
کامل فوچس یونیورسٹی آف تل ابیب میں پولسٹر ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر حزبِ اختلاف کی پارٹیوں نے انتخابات میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کر لی تو مسٹر نیتن یاہو ان کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ ’’ تا ہم، اگر اس کے نتیجے میں کوئی نسبتاً کمزور مخلوط حکومت بنتی ہے تو پھر ممکن ہے کہ وہ دائیں بازو کے ساتھ مل کر ہی کام کرنے کا فیصلہ کریں ۔‘‘
فوچس کہتے ہیں کہ اگرچہ نیتن یاہو کے اتحاد کو رائے عامہ کے جائزوں میں سبقت حاصل ہے، پھر بھی اس بات کا امکان موجود ہے کہ بعد میں کسی وقت ووٹروں کی ترجیحات تبدیل ہو جائیں اور اس سے انتخاب کا نتیجہ متاثر ہو۔
انتخابات وقت سے پہلے کرانے کے مطالبے میں حکومت کے بجٹ میں بڑھتے ہوئے خسار ے کو بڑی اہمیت دی گئی تھی ، لیکن امید واروں نے انتخابی مہم میں اس مسئلے کو بڑی حد تک نظر انداز کر دیا ۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بجٹ میں خسارہ کم کرنے کے لیے ضروری ہو گا کہ اخراجات میں بھاری کمی کی جائے، اور شاید ٹیکس بھی بڑھانے پڑیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اگلی اسرائیلی حکومت کی تشکیل میں، بجٹ کے بارے میں مذاکرات کو اہم جگہ ملے گی ۔