اطالوی حکام نے کہا کہ تارکین وطن کے ریلوں میں اضافے سے نبرد آزما حکومت نے پیر کو ایسے اقدامات کی منظوری دی ہے جس سے تارکین وطن کو زیر حراست رکھنے کے دورانئے میں اضافہ اور یہ یقینی بنایا جا سکے گا کہ اٹلی میں قیام کا قانونی حق رکھنے والوں کی پہلے سے زیادہ تعداد کو ان کے وطن واپس بھیجا جا سکے ۔
اس اقدام کا مقصد گزشتہ ہفتے لگ بھگ 10 ہزار تارکین وطن کے اٹلی کےجنوبی جزیرے لمپا ڈوسا میں پہنچنے کے بعد دائیں بازو کی وزیر اعظم جورجا ملونی کی ساکھ کو لگنے والے دھچکے سے نمٹنا ہے جنہوں نے گزشتہ سال یہ دعویٰ کرتے ہوئے انتخاب جیتا تھا کہ وہ غیر قانونی امیگریشن کا خاتمہ کریں گی۔
ملونی نے اس صورت حال پر کابینہ کے ایک اجلا س کے آغاز میں کہا کہ جو تارکین وطن اپنے ملک واپسی کا انتظار کر رہے ہیں انہیں ابتدائی طور پر چھ ماہ تک حراست میں رکھا جانا چاہیے جس میں 18 ماہ تک کا اضافہ کیا جا سکے ۔ یہ اس وقت کی تین ماہ کی مدت سے زیادہ کا دورانیہ ہے ۔
ملونی نے اپنی تقریر میں کہا کہ ، یہ مجموعی طور پر وہ وقت ہے جو ہمیں نہ صرف ضروری اندازوں کے لیے بلکہ بین الاقوامی تحفظ کی شرائط پر پورے نہ اترنے والوں کو ان کے آبائی ملکوں میں واپس بھیجنے کی کارروائی کے لیے بھی درکار ہے ۔
SEE ALSO: تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ: فلاحی تنظیموں کی آزمائشحکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کے تھوڑی ہی دیر بعد کابینہ نے ان اقدامات کے ساتھ ساتھ دور دراز علاقوں میں مزید حراستی مراکز تشکیل دینے کی بھی منظوری دے دی ۔
اطالوی قانون کے تحت جن تارکین وطن کو اپنے ملکوں کو واپسی کا سامنا ہے اگر انہیں فوری طور پرنہیں نکالا جا سکتا تو انہیں حراست میں رکھا جاسکتا ہے ۔ حکام کا کہنا ہے کہ اٹلی آنے والے تارکین وطن کی اکثریت اقتصادی وجوہا ت کی بنا پر وہاں آتی ہے اور اس لیے وہ پناہ حاصل کرنے کی شرائط پر پوری نہیں اترتی۔
تارکین وطن کو روکنے کی ماضی میں کی گئی کوششیں زیادہ تر اس لیے ناکام ہوئیں کہ جن لوگوں کو حراست میں رکھا گیا وہ بار بار حراستی مراکز سے فرار ہو ئے اور اکثر اوقات سیدھے شمالی یورپ کے زیادہ امیرملکوں کو چلے گئے ۔
SEE ALSO: سعودی عرب پر سرحد عبور کرنے والے سینکڑوں ایتھوپین تارکینِ وطن کو ہلاک کرنے کا الزامملونی نے اتوار کو یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈر لین سے لامپا دوسا میں ملاقات کی جنہوں نے یورپی یونین کے ایک دس نکاتی منصوبے کا وعدہ کیا ۔لیکن یہ اقدامات ان سابقہ اقدامات سے مشابہ ہیں جو زیادہ موثر ثابت نہیں ہو سکے ہیں۔
یورپی یونین اور تیونس کے درمیان جولائی میں ایک معاہدہ طے پایا تھا جس پر ابھی تک عمل نہیں ہو سکا ہے ۔تیونس وہ ملک ہے جہاں سے سب سے زیادہ تارکین وطن آتے ہیں ۔
حکومت کے اعدادو شمار کے مطابق اس سال اب تک تقریباً ایک لاکھ 13 ہزار تارکین وطن اٹلی پہنچ چکے ہیں ۔ یہ 2022 میں اسی عرصے کے دورا ن آنے والوں کی تعداد سے دوگنی ہے ۔
تارکین وطن جن ملکوں سے آتے ہیں ان میں گنی، آئیوری کوسٹ، ٹیونس، مصر ، برکینا فاسو ، بنگلہ دیش اور پاکستان شامل ہیں۔
SEE ALSO: تارکینِ وطن کن خطرات سے کھیل کرشام سے لیبیا اور پھر یورپ پہنچتے ہیں؟تارکین وطن کے ریلوں کو روکنے کے تازہ ترین حکومتی اقدام کی حزب اختلاف اور انسانی حقوق کے گروپس نے مذمت کی ہے ۔
اٹلی کے سول رائٹس اینڈ لبرٹیز کے اتحاد نے حراستی مراکز کو بلیک ہولز قرار دیا ہے جہاں بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوتی ہیں جب کہ وہ بہت مہنگے ہیں اور ان کی کارکردگی خراب ہے ۔
اپریل میں اطالوی پارلیمنٹ نے جلاوطنی کی درخواستوں کے نتائج کا انتظار کرنے والے تارکین وطن کے لیے نئے مراکز اور ملک بدری کا سامنا کرنے والوں کے لیے مزید حراستی مراکز تشکیل دینے کے اقدامات کی منظوری دی تھی۔
اطالوی پارلیمنٹ نے اس پیکیج کی فنڈنگ کے لیے دو سال کے عرصے میں لگ بھگ دو کروڑ یوروز مختص کیے ہیں ۔
( اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے)