رسائی کے لنکس

تارکینِ وطن کن خطرات سے کھیل کرشام سے لیبیا اور پھر یورپ  پہنچتے ہیں؟


پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں غربت اور بےروزگاری کے شکار نوجوان اس سراب کا شکار ہیں کہ کسی نہ کسی طرح یورپ پہنچنا ان کے لیے جادو کی وہ چھڑی ہے جو پلک جھپکتے ہی ان کی زندگی بدل دے گی اور وہ ایک ایسے خطرناک سفر کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہوتے ہیں جو دراصل موت کا سفر ہے۔

جنگ سے تباہ حال شام بھی ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں کے مایوس شہریوں کی جانب سے واٹس ایپ پر ایک پیغام کچھ یوں ارسال کیا جاتا ہے کہ "میں یورپ جانا چاہتا ہوں"۔

پھر انہیں بتایا جاتا ہے کہ اس کےلیے انہیں لیبیا اور پھر بحیرہ روم کے اس پار ایک دشوار گزار سفر شروع کرنے کی ضرورت ہے۔

صدر بشار الاسد کی جانب سے جمہوریت کے حامی پر امن مظاہروں کو دبانے کے نتیجے میں تنازع شروع ہونے کے 12 سال بعد شامی اب بھی ایک ایسی جنگ سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں پانچ لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئےہیں، لاکھوں بے گھر ہوئے اور غیر ملکی طاقتوں اور عالمی جہادیوں نے اس ملک میں ڈیرہ ڈال لیا ہے۔

جون میں لیبیا سے روانہ ہوکر یونان کے قریب ڈوبنے والے ٹرالرپر سوار تارکین وطن کے رشتہ داروں اور کارکنوں نے خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ کم از کم 141 شامی ان 750 تارکین وطن میں شامل تھے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر ڈوب کر ہلاک ہو گئے ہیں۔ اس حادثے میں متعدد پاکستانی بھی ہلاک ہوئے تھے۔

’اے ایف پی‘ نے شامی اسمگلروں اور تارکین وطن سے، مہاجرین کے مرکز، لیبیا کے سفر اور پھر بحیرہ روم کے اس پار مہلک راستے کے بارے میں انٹرویوز کیے ۔ سب ہی افراد نے انٹرویوز میں انتقامی کارروائیوں کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی۔

غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے والے پاکستانیوں کی کہانی
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:02 0:00

شامی تارکین وطن کی کہانیاں ان پاکستانیوں سے مختلف نہیں ہیں جو بہتر مستقبل کی تلاش میں انسانی اسمگلروں کے ہاتھ چڑھ جاتے ہیں اور ان میں سے متعدد کے خاندان ان کی راہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔

ہر ماہ ایک گروپ کی روانگی

شام کے 14 صوبوں میں سے ایک صوبہ درعا میں ایک اسمگلر نے واٹس ایپ پر ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ ہم فون کے ذریعے ہر چیز کو حتمی شکل دیتے ہیں۔

"ہم ان کے پاسپورٹ کی کاپی مانگتے ہیں۔ انہیں بتاتے ہیں کہ رقم کہاں جمع کرنی ہے۔ ہمیں کسی سے ذاتی طور پر ملنے کی ضرورت نہیں ہے۔"

واضح رہے کہ جب ایک دہائی قبل شام میں شروش شروع ہوئی تو درعا اس کا مرکز رہا تھا۔ بعد ازاں یہ حکومت کے کنٹرول سے نکل کر باغیوں کے ہاتھ میں چلا گیا تھا اور 2018 میں حکومت دوبارہ اس کا کنٹرول حاصل کر سکی۔

انسانی حقوق کے رضا کاروں کے مطابق اس کے بعد سے یہ صوبہ قتل و غارت، جھڑپوں اور زندگی کے سنگین حالات سے دوچار ہے۔ یہی وہ صورتِ حال ہے جس سے ملک سےانخلا کو ترجیح دی جا رہی ہے۔

انسانی اسمگلر کہتے ہیں کہ پہلے سال میں صرف ایک گروپ بھیجا جاتا تھا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ ہر ماہ ایک گروپ لیبیا روانہ کیا جاتا ہے۔

ان کے بقول ’’لوگ اپنے گھر فروخت کرکے جا رہے ہیں۔‘‘

اٹلی کشتی حادثہ: کروٹون شہر کے قبرستانوں میں جگہ کم پڑ گئی، رپورٹر
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:07 0:00

اسمگلر ان ضرورت مند تارکین وطن سے خطیر رقوم وصول کر تے ہیں

شام سے نکلنے کے لیے تارکینِ وطن کو اسمگلرز کو فی کس چھ ہزار ڈالر سے زیادہ رقم دینی ہوتی ہے جو تیسرے فریق کے پاس جمع کرائی جاتی ہے۔

انسانی اسمگلر نے اس چھ ہزار ڈالرز میں سے اپنے حصے کے بارے میں بتانے سے انکار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ تارکینِ وطن کے اٹلی پہنچنے کے بعد ادائیگی کی جاتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مشرقی لیبیا میں ان کے پارٹنر کشتی کے سفر کا انتظام کرتے ہیں۔

درعا میں ایک ٹریول ایجنٹ نے، اے ایف پی کے نمائندے کو جس نے خود کو ترک وطن کا خواہش مند ظاہر کیا ، بتایا کہ ایک پیکیج ڈیل کی لاگت ساڑھے چھے ہزار ڈالرہے۔ اس میں ہوائی جہاز کا ٹکٹ، مشرقی لیبیا میں داخلے کی دستاویز، ہوائی اڈے سے پک اپ، ٹرانسپورٹ، رہائش، کشتی کے ذریعہ اٹلی کا سفر اور لائف جیکٹ شامل ہے۔

اسمگلروں کے ہاتھوں تارکینِ وطن کی ذلت اور تشدد

اسمگلروں کا دعویٰ تھا کہ تارکینِ وطن کو ہوٹل یا کسی اچھے اپارٹمنٹ میں ٹھہرایا جاتا ہے۔

ترک وطن کے خواہش مند شامیوں کا کہنا ہے کہ ایسے وعدے شاذ و نادر ہی پورے ہوتے ہیں۔

انہوں نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ تارکینِ وطن کو ایسے گوداموں میں ٹھہرایا جاتا ہے جہاں ان کے بیمار ہونے کا امکان ہوتا ہے جب کہ ان میں بھی گنجائش سے کئی گنا زیادہ افراد کی رہائش ہوتی ہے۔ان مقامات پر مسلح محافظ تارکینِ وطن پر تشدد کرتے ہیں اور ان سے بھتہ لیا جاتا ہے۔

صوبہ درعا سے تعلق رکھنے والے 23 سالہ عمر نے رواں برس انسانی اسمگلروں کے ذریعے لیبیا اور پھر اٹلی جانے کے لیے آٹھ ہزار ڈالر قرضہ لیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ ایک ایسا ملک چھوڑنے کے لیے بے چین ہے جس کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔

عمر اب جرمنی پہنچ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے لیبیا میں لگ بھگ دو ہفتے ایک ایسے بند گودام میں گزارے جہاں ان کے ہمراہ 200 دیگر افراد بھی موجود تھے۔

عمر نے مزید کہا کہ ان کے ساتھ بد سلوکی کی گئی۔ اس دوران ان کی تذلیل کی جاتی تھی جب کہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس مقام پر تعینات محافظ نے انہیں کھانے کے لیے صرف چاول، روٹی اور پنیر کی معمولی سی مقدار دی۔

جس دن لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ سمندر راستے سے کشتی کے ذریعے ہونا تھا اس کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لگ بھگ 20 مسلح افراد نے ان کو گودام سے ساحل تک دوڑانے پر مجبور کیا۔

"انہوں نے ہمیں اپنی رائفلوں کے بٹ سے مارا"۔

عمر کے مطابق جب وہ سب لوگ دوڑتے دوڑتے آخر کار ساحل پر پہنچے تو بری طرح تھک چکے تھے۔

’’مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں یہاں تک پہنچ پاؤں گا۔‘‘

کیا تارکین وطن کو وہ منزل ملتی ہے ؟

انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس مختلف اقوام کے اٹھارہ سو سے زیادہ تارکینِ وطن نے وسطی بحیرہ روم کو عبور کرتے ہوئے یورپ کا سفر کیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کے مطابق لگ بھگ نوے ہزار دیگر تارکینِ وطن اٹلی پہنچے جن میں سے زیادہ تر لیبیا یا تیونس سے آئے ہیں۔

شمالی شام کے کردوں کے زیرِ قبضہ علاقے کوبانی سے تعلق رکھنے والے 23 سالہ ایک نوجوان جون میں یونان کے قریب بحری جہاز کے حادثے میں بچ جانے والے 100 افراد میں شامل تھے۔

اس نوجوان نے ایسے سفر کے لیے چھ ہزار ڈالر سے زیادہ کی ادائیگی کی تھی۔ خطرناک سفر کے دوران وہ موت کے منہ میں جاتے جاتے بچا تھا۔

اس نوجوان نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ سب کچھ ہولناک تھا۔ کھانے اور پانی کے لیے بےبسی کے عالم میں لڑائی میں چھ افراد ہلاک ہوئے جب کہ پانچویں دن سمندری پانی پینا شروع کر دیا تھا۔

ان کے بقول وہ میں جنگ کو پیچھے چھوڑنا چاہتے تھے۔ وہ اپنی زندگی گزارنا چاہتا تھا اور اپنے خاندان کی مدد کرنا چاہتے تھے۔

انہوں نے دیگر نوجوانوں کو یورپ کے لیے سفر کے لیے بھی خبردارکیا۔

یونان حادثہ: 'توکل ہے کہ کوئی معجزہ ہو اور بیٹے کی اطلاع مل جائے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:14 0:00

ان کے مطابق ان سے اچھی رہائش اور محفوظ ٹرالر دینے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن ان کو ایسا کچھ نہیں ملا تھا۔

بہت سے پاکستانی بھی غیر قانونی راستوں سے بیرونِ ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان پاکستانیوں کی کہانیاں بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہوتیں۔

اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے معلومات حاصل کی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG