اٹلی سے تعلق رکھنے والے جیوسیپی پیٹرنو آخر کار 96 سال کی عمر میں گریجویٹ ہوگئے۔
بچپن میں گزارے ہوئےغربت کے دن، جنگی حالات اور اب کرونا وائرس کی وبا پھیلنے کے باوجود کامیابی کے ساتھ آگے بڑھنے والے جیوسیپی پیٹرنو ملک کے سب سے عمر رسیدہ گریجویٹ بن گئے ہیں۔
جیوسیپی پیٹرنو اٹلی کے محکمہ ریلوے سے وابستہ تھے۔ رواں ہفتے انہیں گریجویشن سرٹیفکیٹ اور گلدستے سے نوازا گیا۔
اس موقع پر ان کے اہل خانہ، اساتذہ اور ان کے جونیئر ساتھی طالب علم بھی موجود تھے جن کی عمریں 70 سال سے زائد تھیں۔
جیوسیپی پیٹرنو کو سرٹیفیکٹ ملنے پر ان لوگوں نے خوب تالیاں بجائیں۔
جب جیوسیپی پیٹرنو سے پوچھا گیا کہ اتنی عمر گزرنے کے بعد گریجویشن کرنے پر ان کے کیا احساسات ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ دیگر لوگوں کی طرح میں بھی ایک عام سا شخص ہوں۔ عمر کی بات کی جائے تو دیگر تمام لوگوں کو میں نے پیچھے چھوڑ دیا ہے لیکن گریجویشن میں نے اس لیے نہیں کی کہ دوسروں پر سبقت لے سکوں۔
دراصل پیٹرنو کتابوں کی محبت کے ساتھ پروان چڑھے لیکن انہیں کبھی تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا۔
جب انہوں نے 2017 میں تاریخ اور فلسفے میں ڈگری کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو ان کی عمر اس وقت بھی 93 سال سے زائد تھی۔
پیٹرنو نے سسلی شہر میں موجود اپنے اپارٹمنٹ میں برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے گفتگو میں بتایا کہ میں نے 2017 میں ہی فیصلہ کرلیا تھا کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔ لہذا پہلی فرصت میں داخلہ لے لیا۔
ان کے بقول میں اس بات کو سمجھتا تھا کہ تین سالہ ڈگری کا حصول مشکل ہے لیکن میں نے اپنے آپ سے کہا کہ دیکھتے ہیں میں یہ کرسکتا ہوں یا نہیں۔
گزشتہ بدھ کو انہوں نے کلاس میں پہلی پوزیشن لانے پر یونیورسٹی کے چانسلر فیبریزیو میکاری سے مبارک باد وصول کی۔
سسلی کے ایک غریب خاندان میں پرورش پانے والے پیٹرنو بچپن میں صرف اسکول کی بنیادی تعلیم ہی حاصل کرسکے تھے۔
ریلوے میں ملازمت سے قبل انہوں نے بحریہ میں شمولیت اختیار کی اور دوسری جنگ عظیم میں اپنی پیشہ وارانہ خدمات انجام دیں۔ اسی دوران ان کی شادی ہوگئی۔ ان کے دو بچے ہیں۔
جنگ کے بعد تعمیرِ نو کے عمل سے گزرنے والے معاشرے میں کام اورخاندان ترجیحات ہوتی ہیں لیکن پیٹرنو 31 سال کی عمر میں تعلیم کا حصول اور ہائی اسکول سے گریجویشن کرنے اور مزید آگے بڑھنے کی خواہش دل میں رکھتے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ علم ایک سوٹ کیس کی مانند ہے جسے میں ساتھ رکھتا ہوں۔ یہ ایک خزانہ ہے۔
طالب علم کی حیثیت سے وہ اپنے نوٹس مینوئل ٹائپ رائٹر کی مدد سے تیار کرتے تھے۔
یہ ٹائپ رائٹر ان کی والدہ نے 1984 میں اس وقت دیا تھا جب وہ ریلوے سے ریٹائر ہوئے تھے۔
پیٹرنو نے اعتراف کیا کہ کرونا وائرس کے باعث شٹ ڈاؤن کی وجہ سے وہ کلاس روم کی جگہ ویڈیو کال کی وجہ سے تھوڑے بے چین تھے لیکن انہوں نے اسے چھوڑا نہیں کیوں کہ وہ زندگی کے تقریباََ تمام نشیب و فراز دیکھ چکے ہیں۔
مستقبل کی منصوبہ بندی کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ وہ رکنے والے نہیں ہیں، گریجویٹ ہو چکے ہیں اور اب خود کو تصنیف کے شعبے کے لیے وقف کرنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ دنیا کو مزید دریافت کرنے کے خواہش مند ہیں اور بہت سے موضوعات پر تحقیق کرنا چاہتے ہیں۔