پاکستان مسلم لیگ ن کے نامزد صدارتی امیدوار نے یہ بھی کہا ہے کہ صدر بننے پر، وہ نہیں چاہیں گے کہ حکومت کے کام میں مداخلت کی جائے
واشنگٹن —
پاکستان کے صدارتی انتخاب میں نمایاں امیدوار، ممنون حسین نے کہا ہے کہ صدر وفاق کی علامت ہوتا ہے اور اگر وہ منتخب ہوگئے، تو ایوانِ صدر میں بیٹھ کر اُن کی کوشش ہوگی کہ تمام سیاسی جماعتوں میں ہم آہنگی کی فضا پیدا کریں۔
ممنون حسین کو صدارت کے عہدے کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے نامزد کیا گیا ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ اردو سروس سے انٹرویو میں اُنھوں نے اِس بات کا بھی اعادہ کیا کہ صدر بننے کی صورت میں وہ پارٹی کی رکنیت اور پارٹی کے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گے۔
یاد رہے کہ موجودہ صدر، آصف علی زرداری نے حکمراں پیپلز پارٹی میں اپنا عہدہ برقرار رکھا تھا اور شریک چیرمین کی حیثیت سے ایوانِ صدر میں پیپلز پارٹی کے اجلاسوں کی صدارت بھی کرتے رہے تھے، جس پر اُنھیں اپوزیشن اور دوسرے حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا بھی رہا تھا۔
ممنون حسین نے یہ بھی کہا کہ صدر بننے کی صورت میں اُن کا کوئی ارادہ نہیں کہ وہ حکومت وقت کے کام میں مداخلت کریں۔ تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ اگر جہاں کہیں بھی حکومت نے اُن سے کوئی مشورہ مانگا تو، بقول اُن کے، وہ حاضر ہوں گے۔
اُنھوں نے کہا: ’میرا کام تو یہی ہوگا کہ جس طرح حکومت کے کاموں میں مدد کرسکتا ہوں وہ میں ضرور کروں گا‘۔
ممنون حسین نے اس جانب توجہ دلائی کہ پاکستان کے آئین کے حوالے سے صدر پاکستان کی جو ذمہ داریاں ہوتی ہیں، منتخب ہونے کی صورت میں اُن فرائض کو وہ احسن طریقے سے ادا کرنے کی کوشش کریں گے، اور اگر وہ اس میں کامیاب ہوگئے تو یقیناً یہ پاکستان کے لیے مفید ہوگا‘۔
وہ کہتے ہیں کہ صدر کا کام حکومتِ وقت کے کام میں آسانیاں پیدا کرنا ہوتا ہے، لیکن اصل کام حکومت کو ہی کرنا ہوتا ہے۔
ممنون حسین نے اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ، بقول اُن کے، پی ایم ایل (ن) کی حکومت جب اپنے پانچ سال مکمل کرے گی تو پاکستان ایک اسلامی فلاحی مملکت کے راستے پر گامزن ہو چکا ہوگا۔
ایک سوال کے جواب میں کہ صدارت کے عہدے کے لیے متفقہ امیدواروں کی باتیں بھی کی جارہی ہیں، ممنون حسین نے اس خیال کا اظہار کیا کہ اگر ایسا ہوجائے تو اچھی بات ہے اور خدا کرے جن لوگوں نے یہ بات شروع کی ہے وہ اس میں کامیاب ہوجائیں۔ ’مجھے اس میں کوئی برائی نہیں لگتی‘۔
اُنھوں نے کہا کہ اگر کوئی ہم سے بات کرے گا تو کسی نہ کسی نتیجے پر پہنچ کر کسی ایک امیدوار کے حق میں فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کا صدارتی انتخاب پروگرام کے مطابق آئندہ منگل 30جولائی کو ہونا طے پایا ہے اور اس کے لیے سیاسی جماعتوں میں رابطے اور صلاح مشورے عروج پر ہیں۔
تفصیل سننے کے لیے آڈیو رپورٹ پر کلک کیجئیے:
ممنون حسین کو صدارت کے عہدے کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے نامزد کیا گیا ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ اردو سروس سے انٹرویو میں اُنھوں نے اِس بات کا بھی اعادہ کیا کہ صدر بننے کی صورت میں وہ پارٹی کی رکنیت اور پارٹی کے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گے۔
یاد رہے کہ موجودہ صدر، آصف علی زرداری نے حکمراں پیپلز پارٹی میں اپنا عہدہ برقرار رکھا تھا اور شریک چیرمین کی حیثیت سے ایوانِ صدر میں پیپلز پارٹی کے اجلاسوں کی صدارت بھی کرتے رہے تھے، جس پر اُنھیں اپوزیشن اور دوسرے حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا بھی رہا تھا۔
ممنون حسین نے یہ بھی کہا کہ صدر بننے کی صورت میں اُن کا کوئی ارادہ نہیں کہ وہ حکومت وقت کے کام میں مداخلت کریں۔ تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ اگر جہاں کہیں بھی حکومت نے اُن سے کوئی مشورہ مانگا تو، بقول اُن کے، وہ حاضر ہوں گے۔
اُنھوں نے کہا: ’میرا کام تو یہی ہوگا کہ جس طرح حکومت کے کاموں میں مدد کرسکتا ہوں وہ میں ضرور کروں گا‘۔
ممنون حسین نے اس جانب توجہ دلائی کہ پاکستان کے آئین کے حوالے سے صدر پاکستان کی جو ذمہ داریاں ہوتی ہیں، منتخب ہونے کی صورت میں اُن فرائض کو وہ احسن طریقے سے ادا کرنے کی کوشش کریں گے، اور اگر وہ اس میں کامیاب ہوگئے تو یقیناً یہ پاکستان کے لیے مفید ہوگا‘۔
وہ کہتے ہیں کہ صدر کا کام حکومتِ وقت کے کام میں آسانیاں پیدا کرنا ہوتا ہے، لیکن اصل کام حکومت کو ہی کرنا ہوتا ہے۔
ممنون حسین نے اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ، بقول اُن کے، پی ایم ایل (ن) کی حکومت جب اپنے پانچ سال مکمل کرے گی تو پاکستان ایک اسلامی فلاحی مملکت کے راستے پر گامزن ہو چکا ہوگا۔
ایک سوال کے جواب میں کہ صدارت کے عہدے کے لیے متفقہ امیدواروں کی باتیں بھی کی جارہی ہیں، ممنون حسین نے اس خیال کا اظہار کیا کہ اگر ایسا ہوجائے تو اچھی بات ہے اور خدا کرے جن لوگوں نے یہ بات شروع کی ہے وہ اس میں کامیاب ہوجائیں۔ ’مجھے اس میں کوئی برائی نہیں لگتی‘۔
اُنھوں نے کہا کہ اگر کوئی ہم سے بات کرے گا تو کسی نہ کسی نتیجے پر پہنچ کر کسی ایک امیدوار کے حق میں فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کا صدارتی انتخاب پروگرام کے مطابق آئندہ منگل 30جولائی کو ہونا طے پایا ہے اور اس کے لیے سیاسی جماعتوں میں رابطے اور صلاح مشورے عروج پر ہیں۔
تفصیل سننے کے لیے آڈیو رپورٹ پر کلک کیجئیے:
Your browser doesn’t support HTML5