اسلام آباد —
پاکستان کی عدالت عظمٰی نے صدارتی انتخابات 30 جولائی کو کرانے کا حکم دیا ہے جب کہ الیکشن کمیشن کی شیڈول کے مطابق چند آزاد امیدواروں کے علاوہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ممنون حسین، حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیلزپارٹی کے رضا ربانی اور پاکستان تحریک انصاف کے وجہیہ الدین نے بدھ کو صدراتی انتخابات کے لیے کاغذات نامذگی جمع کرائے۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخابات چھ اگست کو کرانے کا اعلان کیا تھا، جس پر حکمران مسلم (ن) نے الیکشن کمیشن سے ایک خط کے ذریعے استدعا کی تھی کہ کیونکہ چھ اگست کی تاریخ رمضان کے آخری عشرے میں آ رہی ہے اور بہت سے قانون ساز عمرے کی ادائیگی کے لیے ملک سے باہر ہوں گے اس لیے صدارتی انتخاب کی تاریخ میں تبدیلی کی جائے۔
تاہم الیکشن کمیشن نے اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے صدارتی انتخابات چھ اگست کو ہی کرانے کا فیصلہ کیا تھا۔
لیکن منگل کو حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنماء راجہ ظفر الحق نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کر دی تھی جس میں صدراتی انتخابات 30 جولائی کو کرانے کی استدعا کی گئی تھی۔
عدالت عظمٰی نے بدھ کو مختصر دلائل سننے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ صدارتی انتخابات 30 جولائی کو کراوئے جائیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد راجہ ظفر الحق نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ ’’لگ بھگ 100 کے قریب قانون ساز اس سے متاثر ہوتے۔ یا وہ ووٹ ڈالتے یا وہ اس مقدس مہینے میں عبادت کے لیے سعودی عرب جاتے یا اعتکاف بیٹھتے…. میں سپریم کورٹ کا بھی شکر گزار ہوں کہ بہت سے لوگوں کی اس اُلجھن کو اُنھوں نے دور کیا ہے اور صحیح فیصلہ کیا ہے۔‘‘
لیکن پیپلز پارٹی کے صدارتی اُمید وار رضا ربانی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد اُنھیں اپنی مہم چلانے کے لیے وقت نہیں ملے گا۔ ’’ایک فریق جو الیکشن میں حصہ دار ہے، اس کے دلائل کو سنتے ہوئے دیگر لوگوں کے نکتہ نظر کو سامنے نہیں رکھا… یہ جو یکطرفہ فیصلہ ہوا ہے اس سے انتخابی مہم چلانے کا میرا حق متاثر ہوا ہے۔‘‘
پاکستان کے موجودہ صدر آصف علی زرداری کی پانچ سالہ مدت صدارت نو ستمبر کو مکمل ہو رہی ہے، حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کی شکست کے بعد اُنھوں نے صدارتی انتخابات میں حصہ نا لینے کا فیصلہ کیا تھا۔
منصب صدارت کے لیے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے اُمیدوار ممنوں حسین نے اسلام آباد میں پارٹی کے دیگر کئی رہنماؤں کے ہمراہ کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ پانچ سال میں پاکستان کو درپیش بیشتر مسائل پر قابو لیا جائے گا اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔
’’ہمیں اس جذبے کو دوبارہ پیدا کرنا ہوگا جس کا مظاہرہ پاکستان کے قیام کے وقت کیا گیا تھا….. پاکستان میں جو خرابیاں آ چکی ہیں اس دور کرنے کے لیے ہر شخص اپنی اپنی کوشش کرے۔‘‘
مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کا کہنا تھا کہ وہ اپنی غیرجانبداری ثابت کرنے کی غرض سے صدر منتخب ہونے کی صورت میں اپنی جماعت کی بنیادی رکنیت چھوڑ دیں گے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدوار سینیٹر رضا ربانی کہتے ہیں کہ ملک میں آئین کے تحت جمہوری اداروں کو مستحکم بنانے کے ساتھ ساتھ قانون کی بالادستی، بدعنوانی اور سفارش کے کلچر کو ختم کرنا ہو گا۔
’’آئین میں بڑے واضح انداز میں ہر آئینی دفتر اور ادارے کے کردار کا دیا گیا ہے۔ ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے کام کرنا ہے اور اپنے پیغام کو آگے لے کر چلنا ہے۔‘‘
پاکستان پیپلزپارٹی کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ نواز لیگ اور اس کے اتحادیوں کے امیدوار کو صدراتی انتخابات میں کامیابی کے لیے 60 سے زائد ووٹوں کی کمی کا سامنا ہے اور حزب اختلاف کی تمام جماعتیں مشترکہ اُمیدوار سامنے لے آئین تو اس کی کامیابی ممکن ہے۔
تاہم وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بدھ کو جماعت اسلامی کے امیر منور حسن سے ملاقات کے بعد اس تاثر کو رد کیا کہ اُن کی جماعت کے اُمیدوار کو مطلوبہ قانون سازوں کی حمایت حاصل نہیں۔ ’’مجھے نہیں پتا کہ کیوں اس بات کا بار بار اظہار کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے جس کی اکثریت ہے وہ جیتے گا اور مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کے ووٹ کافی اطمینان بخش ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخابات چھ اگست کو کرانے کا اعلان کیا تھا، جس پر حکمران مسلم (ن) نے الیکشن کمیشن سے ایک خط کے ذریعے استدعا کی تھی کہ کیونکہ چھ اگست کی تاریخ رمضان کے آخری عشرے میں آ رہی ہے اور بہت سے قانون ساز عمرے کی ادائیگی کے لیے ملک سے باہر ہوں گے اس لیے صدارتی انتخاب کی تاریخ میں تبدیلی کی جائے۔
تاہم الیکشن کمیشن نے اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے صدارتی انتخابات چھ اگست کو ہی کرانے کا فیصلہ کیا تھا۔
لیکن منگل کو حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنماء راجہ ظفر الحق نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کر دی تھی جس میں صدراتی انتخابات 30 جولائی کو کرانے کی استدعا کی گئی تھی۔
عدالت عظمٰی نے بدھ کو مختصر دلائل سننے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ صدارتی انتخابات 30 جولائی کو کراوئے جائیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد راجہ ظفر الحق نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ ’’لگ بھگ 100 کے قریب قانون ساز اس سے متاثر ہوتے۔ یا وہ ووٹ ڈالتے یا وہ اس مقدس مہینے میں عبادت کے لیے سعودی عرب جاتے یا اعتکاف بیٹھتے…. میں سپریم کورٹ کا بھی شکر گزار ہوں کہ بہت سے لوگوں کی اس اُلجھن کو اُنھوں نے دور کیا ہے اور صحیح فیصلہ کیا ہے۔‘‘
لیکن پیپلز پارٹی کے صدارتی اُمید وار رضا ربانی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد اُنھیں اپنی مہم چلانے کے لیے وقت نہیں ملے گا۔ ’’ایک فریق جو الیکشن میں حصہ دار ہے، اس کے دلائل کو سنتے ہوئے دیگر لوگوں کے نکتہ نظر کو سامنے نہیں رکھا… یہ جو یکطرفہ فیصلہ ہوا ہے اس سے انتخابی مہم چلانے کا میرا حق متاثر ہوا ہے۔‘‘
پاکستان کے موجودہ صدر آصف علی زرداری کی پانچ سالہ مدت صدارت نو ستمبر کو مکمل ہو رہی ہے، حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کی شکست کے بعد اُنھوں نے صدارتی انتخابات میں حصہ نا لینے کا فیصلہ کیا تھا۔
منصب صدارت کے لیے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے اُمیدوار ممنوں حسین نے اسلام آباد میں پارٹی کے دیگر کئی رہنماؤں کے ہمراہ کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ پانچ سال میں پاکستان کو درپیش بیشتر مسائل پر قابو لیا جائے گا اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔
’’ہمیں اس جذبے کو دوبارہ پیدا کرنا ہوگا جس کا مظاہرہ پاکستان کے قیام کے وقت کیا گیا تھا….. پاکستان میں جو خرابیاں آ چکی ہیں اس دور کرنے کے لیے ہر شخص اپنی اپنی کوشش کرے۔‘‘
مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کا کہنا تھا کہ وہ اپنی غیرجانبداری ثابت کرنے کی غرض سے صدر منتخب ہونے کی صورت میں اپنی جماعت کی بنیادی رکنیت چھوڑ دیں گے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدوار سینیٹر رضا ربانی کہتے ہیں کہ ملک میں آئین کے تحت جمہوری اداروں کو مستحکم بنانے کے ساتھ ساتھ قانون کی بالادستی، بدعنوانی اور سفارش کے کلچر کو ختم کرنا ہو گا۔
’’آئین میں بڑے واضح انداز میں ہر آئینی دفتر اور ادارے کے کردار کا دیا گیا ہے۔ ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے کام کرنا ہے اور اپنے پیغام کو آگے لے کر چلنا ہے۔‘‘
پاکستان پیپلزپارٹی کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ نواز لیگ اور اس کے اتحادیوں کے امیدوار کو صدراتی انتخابات میں کامیابی کے لیے 60 سے زائد ووٹوں کی کمی کا سامنا ہے اور حزب اختلاف کی تمام جماعتیں مشترکہ اُمیدوار سامنے لے آئین تو اس کی کامیابی ممکن ہے۔
تاہم وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بدھ کو جماعت اسلامی کے امیر منور حسن سے ملاقات کے بعد اس تاثر کو رد کیا کہ اُن کی جماعت کے اُمیدوار کو مطلوبہ قانون سازوں کی حمایت حاصل نہیں۔ ’’مجھے نہیں پتا کہ کیوں اس بات کا بار بار اظہار کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے جس کی اکثریت ہے وہ جیتے گا اور مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کے ووٹ کافی اطمینان بخش ہیں۔‘‘