پاکستان، افغانستان اور انڈونیشیا کے 70 علما نے مغربی جاوا کے شہر بوگور میں انڈونیشیا کے صدارتی محل میں ہونے والی ایک کانفرنس میں جمعہ کے روز ایک اجتماعی فتویٰ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’پر تشدد انتہا پسندی اور دہشت گردی اسلامی اصولوں کے خلاف ہیں‘‘۔
’وائس آف امریکہ‘ اُردو سروس کے پروگرام ’جہاں رنگ‘ کی میزبان بہجت جیلانی سے بات کرتے ہوئے پاکستان اور افغانستان کے تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ اس طرح کے فتوے اس سے قبل بھی جاری ہوتے رہے ہیں؛ ’’تاہم، اس بار اس کانفرنس میں جاری ہونے والے فتوے کی اہمیت مختلف ہے کیونکہ اس سے قیام امن کے سلسلے میں افغان حکومت کے عزم کا اظہار ہوتا ہے‘‘۔
ایف سی کالج یونیورسٹی لاہور کے پروفیسر اور مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ایڈجنکٹ سکالر ڈاکٹر فاروق حسنات کہتے ہیں کہ متحارب دہشت گرد گروپ اپنی کارروائیوں کے جواز کیلئے مذہب کو استعمال کرتے ہیں۔ تاہم، علما کی اکثریت کی جانب سے جاری ہونے والے فتوے سے مثبت اثر پڑے گا اور دہشت گرد کارروائیوں کیلئے مذہب کے استعمال کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
افغانستان کے ممتاز میڈیا ادارے ’آؤٹ لُک افغانستان‘ کے چیئرمین ڈاکٹر حسین یاسا اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں، طالبان کی صفوں میں بھی علما موجود ہیں جو ان کی کارروایئوں کا جواز پیش کرتے ہیں۔ لہذا، اُنہیں دہشت گردی چھوڑنے پر آمادہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔
ڈاکٹر یاسا نے مزید کہا کہ ’’اُن کا اپنا ایجنڈا ہے اور وہ اس کے مطابق ہی چلیں گے‘‘۔ بقول اُن کے، اس سلسلے میں کچھ اور اقدام درکار ہیں جو صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد دے سکیں۔
پاکستان، برسلز اور امریکہ میں موجود ادارے ’پاکستان ہاؤس‘ کے ڈائریکٹر جنرل رانا اطہر جاوید کا کہنا تھا کہ ان فتووں کے نفاذ میں علما کا بڑا کردار ہونا چاہئیے خاص طور پر دہشت گردوں سے نمٹتے ہوئے۔ ایسے علما کو بڑی تعداد میں موجود ہونا چاہئیے جو متحارب گروپوں کو مذہب کے غلط استعمال سے روکنے کیلئے قائل کر سکیں۔
Your browser doesn’t support HTML5