کرہ ارض پر حیات کے آغاز پر تحقیق کرنے والے جاپانی مشن 'ہایابوسا-2 پراجیکٹ' کے منتظم ماکوتو یوشیکاوا نے کہا ہے کہ مشن کے سائنس دان شہبابیئے 'ریوگو' سے حاصل ہونے والے مٹی اور چٹانوں کے نمونوں کے منتظر ہیں تاکہ تحقیق کے کام کو آگے بڑھایا جا سکے۔
یوشیکاوا کا کہنا تھا کہ زمین پر زندگی کی ابتدا نامیاتی اجزا سے ہوئی ہے، لیکن ہم ابھی تک یہ نہیں جانتے کہ وہ کہاں سےآئے تھے۔ ہمیں توقع ہے کہ ہمارے خلائی مشن سے زمین پر زندگی کی شروعات کا کھوج لگانے میں مدد ملے گی۔
جاپان کا خلائی ادارہ ' جاکسا' خلائے بسیط میں تیرتے ہوئے ایک شہابئیے سے لائے جانے والے نمونے زمین پہنچانے کی تیاری کر رہا ہے۔ توقع ہے کہ یہ نمونے ایک کیپسول کے ذریعے آسٹریلیا کے ایک دور افتادہ علاقے میں اتارے جائیں گے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جب بھی کوئی بیرونی چیز زمین کے کرہ ہوائی میں داخل ہوتی ہے تو اس کی رفتار اور ہوا کی رگڑ کی وجہ سے اس میں آگ لگ جاتی ہے۔ اور وہ زمین پر پہنچنے سے پہلے ہی راکھ بن جاتی ہے۔ تاہم نمونے لانے والے کیپسول کے گرد حرارت سے بچاؤ کی حفاظتی چادر لگائی گئی ہے۔ جب کیپسول زمین سے 10 کلومیٹر دور رہ جائے گا تو اس کا پیراشوٹ کھل جائے گا اور وہ آہستگی سے زمین پر اتر جائے گا۔
شہابیئے سے نمونے لانے والا کیپسول بہت ہی چھوٹا ہے اور قطر محض 15 انچ ہے۔ ایک وسیع و عریض بیابان علاقے میں اتنے چھوٹے سائز کا کیپسول ڈھونڈنے کے لیے ڈرونز، ہیلی کاپٹر، ریڈار اور دوسرے آلات پہنچا دئے گئے ہیں۔
جاپان نے اپنے اس تحقیقی مشن کا آغاز 2014 میں کیا تھا، جسے ریوگو نامی شہابئیے تک پہنچنے میں کئی سال کا عرصہ لگا، جس کے بعد جون 2018 سے خلائی جہاز مسلسل شہابئیے کےگرد چکر لگا رہا تھا۔ ڈیڑھ سال کی گردش کےدوران اس نے دو بار شہابئیےکی سطح کو چھوا۔ پہلی کوشش میں اس نے اس کی سطح سے گردوغبار اور مٹی کا نمونہ اکھٹا کیا اور دوسری بار اس نے فروری 2019 میں شہابئیے کی ایک کھائی میں دھماکہ کر کے سطح کے نیچے کے نمونے حاصل کیے۔ یہ خلائی تحقیق کا اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔
کیپسول کو زمین پر اتارنے سے خلائی جہاز کا مشن ختم نہیں ہو گا بلکہ اس کے بعد وہ اپنی اگلی منزل کی جانب روانہ ہو جائے گا۔ یہ ایک اور چھوٹے شہابئیے کی جانب روانہ ہو گا جس کا نام 1998KB26ہے۔ خلائی جہاز کو وہاں پہنچنے میں 10 سال کا عرصہ لگے گا۔
مشن کے خلائی جہاز سے بھیجی جانے والی معلومات سے پتا چلا ہے کہ شہابئیےپر کاربن اور دوسرے نامیاتی مادے موجود ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ وہ یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ نامیاتی مادے نظام شمسی میں کس طرح پھیلے اور ان مادوں نے زمین پر کس طرح زندگی کی شروعات میں بنیادی کردار ادا کیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
شہابئیےستاروں اور سیاروں کی نسبت بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور وہ انہی کی طرح خلا میں گردش کرتے رہتے ہیں۔ انہیں اڑتی ہوئی چٹانیں بھی کہا جاتا ہے۔
ریوگو نامی شہابئیے کا شمار کائنات کے قدیم ترین اجرام فلکی میں کیا جاتا ہے۔اس کے بارے میں خیال ہے کہ وہ اس وقت وجود میں آیا تھا جب نظام شمسی ترتیب پا رہا تھا۔ یہ زمین سے انتہائی دوری پر واقع ہے۔ خلائی جہاز کو اس کے مدار میں پہنچنے میں ساڑھے تین سال کا عرصہ لگا ہے۔ تاہم واپسی کا سفر نسبتاً بہت مختصر تھا، جس کی وجہ یہ ہے کہ شہابئیےاور زمین گردش کرتے ہوئے ایک ایسے مقام پر آگئے تھے جہاں دونوں کے درمیان فاصلہ کم سے کم ہوتا ہے۔
سائنس دانوں کو توقع ہے کہ اس شہابیئے میں پائے جانے والے نامیاتی مادوں پر تحقیق سے یہ کھوج مل جائے گا کہ زمین پر زندگی کی شروعات کیسے ہوئی تھی۔ کئی سائنس دانوں کا خیال ہے کہ زمین پر زندگی باہر سے آئی ہے۔
ماہرین فلکیات نے قدیم ترین اجرام فلکی میں شامل اس شہابئیے کا نام ریوگو رکھا ہے۔ یہ جاپانی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب ہے کہ 'ڈریگن کا محل'۔ جاپان کی لوک کہانیوں کے مطابق ڈریگن کا محل سمندر کی تہہ میں ہے۔