وزیراعظم نواز شریف جمعرات کو شریف خاندان کی مبینہ مالی بے ضابطگیوں کی عدالتی حکم پر تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہونے جا رہے ہیں جب کہ یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ ٹیم نے ان کے چھوٹے بھائی اور پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کو بھی 17 جون کو پیش ہونے کا کہا ہے۔
لیکن حالیہ دنوں میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی کارروائی میں اس کے سربراہ کی طرف سے رکاوٹوں کی شکایت سامنے آنے کے علاوہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی طرف سے تحقیقاتی ٹیم کی کارروائی پر دبے لفظوں میں کی جانے والی تنقید بھی اب بلند آہنگ ہو چکی ہے۔
حکمران جماعت کے راہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ جے آئی ٹی وضع کردہ قواعد و ضوابط سے ہٹ کر کام کر رہی ہے۔
بدھ کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں مسلم لیگ ن کے چنندہ راہنماؤں نے ایک بار پھر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ اس موقع پر رکن قومی اسمبلی طلال چودھری کا کہنا تھا۔
"وزیراعظم پر جو کل سوال اٹھائیں گے جو سوال پوچھیں گے ان پر جو سوال اٹھے ہیں اس کا جواب کون دے گا جب تک ان سوالوں کا جواب نہیں آئے گا، کیا انصاف ہو پائے گا اور ان سے انصاف کی توقع کم اور ان پر تحفظات زیادہ ہیں۔"
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے بھی پاناما پیپرز معاملے کی تحقیقات کی نگرانی کرنے والے عدالت عظمیٰ کے بینچ کو تحریری طور پر آگاہ کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ بعض حکومتی ادارے ٹیم کے کام میں رکاوٹ اور اس کی کارروائی کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جے آئی ٹی کی طرف سے کہا گیا کہ وزارت قانون، احتساب کا قومی ادارہ 'نیب'، فیڈرل بورڈ آف ریونیو، سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور انٹیلی جنس بیورو ٹیم کے کام پر مبینہ طور پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تاہم ان اداروں نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔
اسی اثنا میں وزیراعظم کے سب سے بڑے ناقد اور حزب مخالف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی عدالت عظمیٰ میں درخواست جمع کروائی ہے جس میں حکومتی ارکان پر تحقیقاتی ٹیم کو بدنام کرنے اور اس کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کا کہا گیا ہے۔
عمران خان یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ آنے تک اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں کیونکہ ان کے وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہتے ہوئے تحقیقاتی عمل غیرجانبدار اور شفاف نہیں ہو سکتا۔
اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے ایک سینیئر راہنما فواد چودھری نے وزیراعظم نواز شریف پر الزام عائد کیا کہ وہ اپنی پسند کے لوگوں کو اداروں میں تعینات کرتے آئے ہیں لیکن عمران خان کی جماعت کی کوششوں سے اب وزیراعظم کو بھی حساب دینے کے لیے پیش ہونا پڑ رہا ہے۔
"یہ تحریک انصاف اور عمران خان کی جدوجہد ہے کہ آج نواز شریف جو اس کیس کے بنیادی ملزم ہیں جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو رہے ہیں۔ وہ کل اپنا بیان ریکارڈ کروائیں گے۔"
ادھر پاناما پیپرز کی تحقیقات کی نگرانی کرنے والے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے وزیراعظم نواز شریف کے بڑے بیٹے حسین نواز کی جے آئی ٹی میں پیشی کی ایک تصویر افشا ہونے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم کی پوچھ گچھ کی وڈیو ریکارڈنگ نہیں ہونی چاہیے۔ جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل خان کا کہنا تھا کہ یہ ریکارڈنگ اس لیے کی جا رہی ہے تاکہ بیانات کی درستگی کو برقرار رکھا جا سکے۔
عدالت عظمیٰ نے حسین نواز کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا اور اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ جے آئی ٹی کی شکایات کا تفصیلی جائزہ لے کر جمعرات کو بینچ کو اس بارے میں مطلع کریں۔
بینچ کا یہ بھی کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کے کام میں رکاوٹ ڈالنا سپریم کورٹ کے کام میں مداخلت کے مترادف ہے۔