پاناما لیکس کے معاملے کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم 'جے آئی ٹی' کی طرف سے پیر کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کو بتایا گیا ہے کہ معاملے کی تفتیش کے لیے مختلف متعلق ریاستی اداروں سے جو دستاویزات مانگی گئی ہیں اُن میں نہ صرف مبینہ طور پر ردوبدل کیا جا رہا ہے بلکہ ریکارڈ کو بھی بدلا جا رہا ہے۔
'جےآئی ٹی' کی طرف سے اپنے کام میں مداخلت سے متعلق ایک رپورٹ تحریری طور پر پیر کو عدالت عظمیٰ کے بینچ کے سامنے پیش کی گئی اور یہ موقف اختیار کیا گیا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ واحد ضیا پیر کو عدالت عظمٰی میں پیش ہوئے اور اپنی درخواست میں کہا کہ اگر صورت حال اسی طرح رہی تو عدالت عظمٰی کی ہدایت کے مطابق ’’جے آئی ٹی‘‘ 60 روز میں اپنی تفتیش مکمل نہیں کر سکے گی۔
تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے 'جے آئی ٹی' کے الزامات پر وفاق کے نمائندے کی حیثیت سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے جواب داخل کرنے کا کہا ہے۔
'جے آئی ٹی' کی طرف سے یہ واضح نہیں کیا گیا کہ اُن کے کام میں کون سا ادارہ یا شخصیت رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔
'جے آئی ٹی' نے اس الزام کو بھی مسترد کیا ہے کہ تفتیش کے دوران وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے حسین نواز کی تصویر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی طرف سے لیک کی گئی تھی۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیشی کے دوران حسین نواز کی ایک تصویر لیک ہوئی تھی، جس پر حسین نواز نے اپنے وکیل کے ذریعے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
واضح رہے کہ چھ رکنی مشترکہ ٹیم نے تحقیقات کے لیے وزیراعظم نواز شریف کو پیش ہونے کا کہا ہے۔
تحقیقاتی ٹیم نے جو نوٹس وزیراعظم نواز شریف کو بھیجا ہے اُس میں کہا گیا کہ وہ 15 جون کو دن گیارہ بجے فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہوں۔
جب کہ 'جے آئی ٹی' کے نوٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وزیراعظم اس معاملے سے متعلق ریکارڈ اور دستاویزات بھی ساتھ لائیں۔
وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ وزیراعظم نے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق 'جے آئی ٹی' کے سامنے پیش ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
اُدھر حزب مخالف کی جماعت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک مرتبہ پھر مطالبہ کیا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف 'جے آئی ٹی' کے سامنے پیش ہونے سے قبل مستعفی ہو جائیں۔