امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے سعودی عرب پہنچنے پر ملک کے فرماں روا شاہ سلمان بن عبد العزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔ ان کے مشرقِ وسطیٰ کے دورے کا مقصد خطے میں امریکہ کے اثر و رسوخ کی بحالی اور ایران کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر اسرائیل کی سلامتی کو مضبوط کرنا شامل ہیں۔
سعودی قیادت سے بائیڈن کی ملاقات ایسے حالات میں ہو رہی ہے جب ماضی میں بائیڈن مملکت کے انسانی حقوق کے حوالے سے ریکارڈ پر تنقید کرتے رہے ہیں۔
صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ ان کا سعودی عرب کا دورہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کے اثر و رسوخ کو مستحکم کرنے کے اقدامات کا حصہ ہے۔
ان کے بقول ’’ہم مشرقِ وسطیٰ میں ایسا خلا نہیں چھوڑ سکتے جس کو پھر روس اور چین مل کر پر کر سکیں۔‘‘
سعودی رہنماؤں کے ساتھ جمعے کو ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی کوششوں کے نتائج سامنے آ رہے ہیں۔
سعودی عرب کا اسرائیل کے لیے فضائی حدود کھولنے کا اعلان
اس سے قبل بائیڈن اسرائیل سے براہ راست پرواز سے جدہ پہنچے تھے۔
سعودی عرب نے امریکہ کے صدر کی جدہ آمد سے چند گھنٹے قبل ہی اپنی فضائی حدود اسرائیل کے لیے کھولنے کا اعلان کیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس اعلان کے بعد سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل آنے جانے والی فلائٹس پر پابندی ختم ہو گئی ہے۔
صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ یہ اقدام ان کی متحد اور مستحکم مشرقِ وسطیٰ کے لیے کوششوں کا نتیجہ ہے۔
شاہ سلمان اور محمد بن سلمان سے ملاقاتوں کے حوالے سے امریکی صدر نے مزید کہا کہ سعودی عرب کے دفاع کے لیے سیکیورٹی ضروریات پر بھی بات ہوئی ہے۔
بائیڈن نے بحیرہ مردار میں واقع تیران جزیرے میں موجود کثیر الملکی امن فورس کی واپسی کا بھی اعلان کیا۔
جزیرہ تیران سے فوج کے انخلا کا اعلان
اس اقدام سے اس جزیرے کی باگ دوڑ ریاض کے ہاتھ میں آجائے گی۔
واشنگٹن نے اس معاہدے کو تاریخی اور خطے میں امن لانے کا باعث قرار دیا ہے۔
بحیرہ مردار میں اہم مقام پر واقعے اس جزیرے پر مصر، سعودی عرب، اسرائیل اور اردن کا دعویٰ ہے۔
اس جزیرے سے امن فوج، جس میں امریکی فورسز بھی 1978 سے شامل ہیں، رواں برس کے آخر میں انخلا کرے گی۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ریاض کا اسرائیلی پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود کھولنے کے پیچھے اس معاہدے کا ہاتھ ہے۔
جمال خشوگی معاملہ
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور دوسرے رہنماؤں کے ساتھ جو بائیڈن کی ملاقات کے حوالے سے رہنما میڈیا کی جانب سے جمال خشوگی کے قتل سے متعلق سوالات کے جواب سے کتراتے رہے۔
میڈیا سے گفتگو میں جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ انہوں نے سعودی ولی عہد کے سامنے جمال خشوگی کے قتل کے حوالے سے اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کیا ہے۔
بائیٖڈن کے بقول ولی عہد محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ وہ خشوگی کے قتل میں ذاتی طور پر ملوث نہیں تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکی صدر نے بتایا کہ انہوں نے جواباً ولی عہد کو کہا کہ ان کے مطابق سعودی ولی عہد اس قتل کے ذمہ دار ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کی تنقید
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکریٹری جنرل ایگنس کلامارڈ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بائیڈن کا سعودی عرب کا دورہ ہر اس فرد کے لیے، جو انسانی حقوق کے لیے کھڑا ہوتا ہے، ایک تھپڑ سے کم نہیں۔
انہوں نے کہا کہ بائیڈن کے اقدامات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسانی حقوق کی کوئی قیمت نہیں ہے اور دوسرے معاملات کے بدلے میں ان کا سودا کیا جا سکتا ہے۔
جو بائیڈن کی عرب رہنماؤں سے ملاقاتیں
امریکہ کے صدر ہفتے کو سعودی شہر جدہ میں عرب رہنماؤں سے ملاقات کریں گے جہاں وہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کے مستقبل کے کردار کے بارے میں اپنا لائحہ عمل پیش کریں گے۔
بائیڈن جی سی سی پلس تھری کے اجلاس میں شرکت کریں گے جہاں گلف کوآپریشن کونسل کے ارکان، بحرین، کویت، اومان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے علاوہ مصر، عراق اور اردن کے رہنما شرکت کر رہے ہیں۔
وہ اس اجلاس میں توانائی پالیسی کے حوالے سےتبادلۂ خیال کیا جائے گا البتہ ان کے مشیروں کا کہنا ہے کہ اس اجلاس میں تیل کی پیداوار کے حوالے سے کوئی اعلان متوقع نہیں ہے۔
بائیڈن اور جی سی سی پلس تھری کے رہنماؤں کی جانب سے عراق کے بجلی کے گرڈ کو کویت اور سعودی عرب کے منسلک کرنے کا اعلان متوقع ہے۔
اس اقدام سے عراق کی توانائی کی ضروریات کے لیے ایران پر انحصار کم ہونے کی امید ہے۔