رسائی کے لنکس

سندھ میں لسانی کشیدگی کے واقعات کی وجہ آخر کیا ہے؟


فائل
فائل

جولائی کی 12 تاریخ کو رات گئے حیدر آباد بائی پاس پر سپر سلاطین ہوٹل پر معمولی جھگڑے کے بعد 34 سالہ شخص بلال کاکا اور اس کے تین ساتھیوں کو سر پر بھاری چیز مار کر شدید زخمی کیا گیا جس میں سے بلال کی موت واقع ہوگئی۔ واقعے کے خلاف احتجاج کیا گیا اور حیدرآباد کراچی شاہراہ بھی بند کردی گئی۔

پولیس نے واقعے کا مقدمہ درج کرکے ہوٹل میں کام کرنے والے دو افراد کو گرفتار کرلیا جبکہ تین اب بھی مفرور ہیں۔

تاہم اس قتل کے بعد صوبے کے مختلف اضلاع جن میں حیدرآباد، جامشورو، کوٹری، سیہون اور دادو میں پشتو بولنے والوں کے چائے کے ہوٹلز بعض قوم پرستوں نے زبردستی بند کرائے، انہیں صوبہ چھوڑ کر نہ جانے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں اور زدوکوب بھی کیا گیا۔

ایسی کئی ویڈیوز سامنے آنے کے بعد ردِ عمل کے طور پر کراچی کے مختلف علاقوں میں بھی احتجاج ہوا جبکہ سہراب گوٹھ میں ہونے والا احتجاج پُر تشدد صورتحال اختیار کرگیا۔ اس دوران سڑک ٹریفک کے لئے بند کردی گئی، پولیس پر پتھراو کیا گیا اور آس پاس کی سڑکوں میں ٹریفک جام کے دوران لوگوں سے لوٹ مار کے واقعات کی بھی اطلاعات ملی ہیں۔

جمعرات اور پھر جمعے کو احتجاج کے دوران شر پسند عناصر نے ہنگامہ آرائی کے دوران کم از کم دو گاڑیوں کو آگ لگادی۔ پولیس نے ہنگامہ آرائی کا مقدمہ درج کرکے 40 افراد کو گرفتار کرکے ان کے خلاف ہنگامہ آرائی، جلاؤ گھیراؤ اور دیگر دفعات کے تحت مقدمات درج کرلئے ہیں۔

سندھ میں لسانیت سے جڑے مسائل کی ایک تاریخ موجود ہے اور ماضی میں ایسے کئی پُر تشدد واقعات ہوچکے ہیں جس میں لسانی بنیادوں پر سینکڑوں افراد کو ہلاک کیا جاچکا ہے۔ تاہم حیدرآباد میں قتل اور پھر اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں سیاسی جماعتوں اور قائدین کی جانب سے شدید مذمت کی جارہی ہے۔

اسی طرح پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما منظور پشتین نے بھی برداشت اور بھائی چارے کی فضاء کو قائم کرنے کی اپیل کی ہے جبکہ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ لوگوں کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنائیں۔

قومی عوامی تحریک کے رہنما ایاز لطیف پلیجو کا کہنا ہے کہ سندھیوں اور پختونوں کےدرمیان غلط فہمی پیدا کرنےکی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔


ادھر انسانی حقوق کمیشن نے سندھ میں لسانی اور سیاسی کشیدگی میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کمیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ بلال کاکا کے قتل کی تحقیقات منصفانہ اور شفاف طریقے سے کی جائے اور سندھ حکومت صوبے میں جرائم اور تشدد پر قابو پانے کے لیے اقدامات بھی کرے۔ اس کمیشن نے ملک کی تمام ترقی پسند آوازوں سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ تفرقہ انگیز یا لسانی بیان بازی سے پرہیز کریں۔

کشیدگی کی وجوہات غیر قانونی تارکین وطن اور بعض آئینی شقیں قرار

مصنف اور دانشور جامی چانڈیو کا کہنا ہے کہ صوبے میں لسانی کشیدگی کے بنیادی اسباب میں غیر قانونی تارکین وطن کی بڑے پیمانے پر آمد اور پھر ان کی بغیر دستاویزات کاروبار کرنے سمیت بعض آئینی شقیں بھی ہیں جو ریاست کو حقیقی وفاق بنانے میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے جامی چانڈیو کا کہنا تھا کہ اگر ملک میں حقیقی فیڈریشن کی بنیاد اگر ڈالی گئی ہوتی، اور تنوع کو قبول کرنے کے آئینی، قانونی طریقہ کار اختیار کئے گئے ہوتے جس کے تحت دُرست اصول اپنائے گئے ہوتے اور اس میں تمام کمیونیٹیز خود کو محفوظ تصور کرتے تو ان کے خیال میں ہمیں ایسے واقعات کا سامنا نہ ہوتا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ تاریخی طور پر دیکھا گیا ہے کہ اگر اُن اصولوں کو پاکستان میں بھی اپنایا جاتا تو فیڈریشن میں ایسے تنازعات وقت کے ساتھ حل ہوجاتے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ کینیڈا میں ریاست اونٹاریو اور کیوبک کے درمیان فرنچ اور انگلش بولنے والوں کے درمیان ماضی میں شدید کشیدگی رہی لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ کیوبیک کی زبان، شناخت اور دیگر حقوق کو کینیڈا کے آئین میں بھی تحفظ فراہم کردیا گیا ہے۔ اسی طرح برازیل، ارجینٹینا، وینزویلا اور میکسیکو میں بھی ایسے ایشوز تھے جو اب کافی حد تک حل ہوچکے ہیں۔ اسی طرح ماضی میں بیلجئیم میں فرانسیسی اور ہسپانوی زبانیں بولنے والے گروہوں کے درمیان کافی کشیدگی رہی جبکہ اسپین میں بھی ایسی ہی صورتحال رہی ہے۔ یہی کچھ سوئٹزرلینڈ میں رہا ہے۔ افریقی ملک نائجیریا میں عیسائی اور مسلمانوں کے درمیان بہت کشیدگی رہی ہے۔ جبکہ ان دونوں مذاہب کے ماننے والوں میں بھی کئی زبانیں بولنے اور علاقائی تنوع موجود ہیں۔ اسی طرح ایتھوپیا، کانگو اور سوڈان میں بھی یہی صورتحال رہی۔ لیکن آہستہ آہستہ یہ ممالک اس صورتحال سے نکل آئے ہیں۔ ملائشیا اور پھر بھارت کی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں۔ بھارت میں 52 فیصد آبادی ہندی اور اردو نہیں بول سکتے لیکن اس کے باوجود بھی وقت کے ساتھ ان کی فیڈریشن کمزور ہونے کے بجائے مضبوط ہوئی ہے۔ جبکہ نیپال اور متحدہ عرب امارات کی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں۔

جامی چانڈیو نے مزید کہا کہ اگر سندھ کی بات کی جائے تو تقسیم سے قبل سندھ میں سندھی بولنے والوں کی آبادی 97 فیصد تھی۔ اردو بولنے والوں کی بڑی تعداد ہجرت کرکے یہاں آئی اور وہ یہاں کے کلچر میں رچ بس چکے ہیں۔ سندھی اور اردو بولنے والوں میں رشتہ داریاں تک ہوچکی ہیں۔ لیکن بعض جماعتیں اس تقسیم کو اب بھی اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ دوسری جانب پنجابی بولنے والے بھی سندھ میں تقسیم سے قبل بدین، سانگھڑ اور دیگر اضلاع میں آباد ہوئے۔ اور ون یونٹ کے دور میں بھی پنجاب سے تعلق رکھنے والوں کو کئی اضلاع میر پور خاص، سانگھڑ، بدین، عمر کوٹ وغیرہ میں میں بڑے پیمانے میں زمینیں الاٹ کی گئیں۔ یہ لوگ بھی سندھ میں مکمل طور پر رچ بس چکے ہیں۔ جبکہ اسی طرح پشتو بولنے والے بڑی تعداد میں شکار پور اور دیگر اضلاع میں دو ڈھائی سو سالوں سے یہاں آباد ہیں اور وہ بھی اس دھرتی کا حصہ بن چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ افراد اکنامک مائیگرینٹ بن کر نہیں آئے بلکہ وہ اس سرزمین کا حصہ بن گئے۔

لیکن معاملہ خراب اس وقت ہوا جب فوجی حکمران ضیاء الحق کے دور میں بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کی سندھ آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ غیر قانونی طور پر یہاں آنے والوں کا وفاقی اور صوبائی حکومت کے پاس کوئی اصل تعداد موجود نہیں۔ ان کی مانیٹرنگ کا کوئی نظام نہیں تاکہ یہ معلوم کیا جائے کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ اور اس میں دونوں حکومتوں کی مجرمانہ غلفت شامل ہے۔ دنیا میں کہیں نہیں ہوتا کہ غیر قانونی مہاجرین کو مستقل شہری بنادیا جائے۔


ان کے خیال میں دوسرا اہم مسئلہ پاکستان کے آئین میں ہے۔ جس کے آرٹیکل 15 کے تحت کسی بھی صوبے کا کوئی بھی شخص کہیں بھی جاکر سکونت اختیار کرسکتا ہے۔ جبکہ آرٹیکل 23 کے تحت کوئی بھی شہری کسی بھی صوبے میں جائیداد خرید سکتا ہے۔ لیکن جامی چانڈیو کے خیال میں دنیا کی فیڈریشنز میں ایسے نہیں ہوتا۔ اس کے لئے کوئی صوبائی قوانین کا بھی اطلاق ہونا چائیے۔ متحدہ عرب امارات جہاں جمہوریت نہیں وہاں پر بھی ایک ریاست کے قوانین دوسری ریاست سے جُدا ہیں۔ اس لئے جو لوگ دوسرے صوبوں سے سندھ میں آرہے ہیں ان کے لئے کوئی مکینزم ہونا چائیے کہ وہ کتنے عرصے کے بعد اور کن شرائط کو پورا کرنے پر یہاں جائیداد خریدنے کے قابل ہونگے، کتنے عرصے بعد ڈومیسائل، مستقل رہائش کا سرٹیفیکیٹ (پی آر سی) یا دوسری دستاویزات یہاں کے پتے پر بنواسکتے ہیں۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ یہ مقامی آبادی کو تحفظ دینے کے لئے ضروری ہے۔ کیونکہ وسائل اور جگہیں کم ہیں جبکہ آبادی کا دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔

دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بھی ان واقعات اور پُر تشدد مظاہروں کا نوٹس لیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا ہے کہ جرائم پیشہ عناصر کا کوئی مذہب، کوئی قومیت اور کوئی زبان نہیں ہوتی بلکہ وہ دہشت گرد، قاتل اور انسانیت کے دشمن ہیں، اس لیے ہمیں حیدرآباد کے واقعہ پر قانون اپنا راستہ اختیار کر چکا ہے لیکن اس واقعے کو مجموعی طور پر ایک مخصوص کمیونٹی کا جرم قرار نہیں دیا جاسکتا۔

وزیر اعلیٰ نے انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ شہر کی کوئی بھی سڑک بند نہیں ہونی چاہئے۔ اگر شرپسند عناصر کوئی بھی سڑک بند کرنے کی کوشش کریں تو ان سے سختی سے نمٹا جائے۔ جبکہ سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG