جان لوئیس کی آخری رسومات، تین سابقہ امریکی صدور کا خراج عقیدت

سابق امریکی صدر براک اوباما جان لوئیس کو الوداعی خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں

اس ماہ وفات پانے والے سیاہ فام امریکی رکن کانگریس اور شہری آزادیوں کے نمایاں رہنما، جان لوئیس کی آخری رسومات جمعرات کو ریاست جارجیا کےشہر اٹلانٹا میں ادا کی گئیں، جہاں تین سابق امریکی صدور نےان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا۔

جان لوئیس لبلبے کے سرطان میں مبتلا تھے اور80 سال کی عمر میں گزشتہ ہفتے انتقال کر گئے۔ انہوں نے 33 برس تک جارجیا کے پانچویں ڈسٹرکٹ کی امریکی کانگرس میں نمائندگی کی۔

جان لوئیس


سابق امریکی صدر براک اوباما نے تعزیتی خطاب میں جان لوئیس کی خدمات کو زبردست الفاظ میں یاد کیا، جبکہ سابقہ صدور جارج بش اور بل کلنٹن نے بھی ایبنیزر بیپٹسٹ چرچ میں الوداعی اجتماع سے خطاب کیا۔ اس چرچ میں شہری آزادیوں کے علمبردار ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ تبلیغ کیا کرتے تھے۔

سابق امریکی صدر بل کلنٹن


اوباما نے کہا کہ لوئیس ایک ایسے امریکی تھے جن کے اعتقاد کو باربار امتحان سے گزرنا پڑا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوئیس کی صورت میں ایک ایسی شخصیت سامنے آئی جو باعث مسرت ہونے کے ساتھ ساتھ استقامت کا کبھی بھی نہ ٹوٹنے والا مجسمہ تھی۔


سابق صدر بش نے کہا کہ لوئیس کو امریکہ کا ایک ولی کہا گیا ہے اور ساتھ ہی انہوں نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ ان کے اور لوئیس کے خیالات بعض اوقات مخالف ہوا کرتے تھے۔ لیکن ان اختلافات کے باوجود بش نےتالیوں کی گونج میں کہا کہ جس امریکہ کے لیے لوئیس نے جدوجہد کی اور جس امریکہ پر وہ خود یقین رکھتےہیں وہاں آرا کا مختلف ہونا کام کرتی ہوئی جمہوریت کا ایک ناگزیر حصہ ہے۔


سابق صدر بل کلنٹن نے کہا کہ لوئیس نے پولیس کا تشدد اور قیدوبند کی صعوبتوں کو برداشت کیا۔ لیکن، ان کی شخصیت کثیرالجہت تھی اور وہ دوسروں سے اسی بات کا تقاضہ کرتے تھے، جس بات پر وہ عملی طور پر خود بھی پورے اترتے تھے۔


سابق صدر کلنٹن نےکہا کہ جان لوئیس بیک وقت کئی خوبیوں کے مالک تھے۔ ان کی شخصیت طوفان میں سورج کی روشنی کے مانند تھی۔ ایک ایسا دوست جو خود بھی ان پتھریلے راستوں پر چلتا، جس کا وہ دوسروں سے تقاضہ کرتا۔ اور ان تمام تکالیف کو جھیلتا جو وہ دوسروں کو سہنے کے لیے کہتا۔ ان کی نظر ہمیشہ منزل مقصود پر ہوتی اور وہ یقین رکھتے تھے کہ تمام لوگ صرف اسی صورت آزاد ہو سکتے ہیں جب ان میں سے ہر ایک مساوی حیثیت سے جیئے۔ میرے دل میں ہمیشہ انکے لیے محبت برقرار رہے گی۔


95 سالہ سابق صدر جمی کارٹر جان لوئیس کی آخری رسومات میں شرکت نہ کر سکے۔ جمی کارٹر نے ہی لوئیس کو وفاقی سطح کے منصب پر قائم کیا تھا۔ ان کے خاندان کے ایک ترجمان نے کہا کہ کارٹر اور ان کی اہلیہ آجکل سفر نہیں کر رہے۔

چرچ کے پاسٹر نے کارٹر کا ایک خط پڑھا جس میں سابق صدر نے لکھا کہ باقی امریکی لوئیس کی کامیابیوں سے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ لیکن ہم انہیں ریاست جارجیا کے ایک ہمسائے، دوست اور نمائندے کے طور پر جانتے ہیں۔



جان لوئیس کو اٹلانٹا کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ اس سے پہلے جب جان لوئیس کے جسد خاکی کو جارجیا کے کیپیٹل کی عمارت میں لایا گیا تو گلیوں کے کناروں پر قطاروں میں جمع عقیدت مند شہری موجود تھے۔

منتظمین نے ان کے امریکی جھنڈے میں لپٹے تابوت کو عوام کے دیدار کے لئے رکھنے کےدورانیئے کو بڑھا دیا تھا تاکہ اس موقع پر موجود تمام سوگوار ان کے آخری سفر کو دیکھ سکیں۔


جان لوئیس کی آخری رسومات سے پہلے اپنے الوداعی کلمات میں جارجیا کے گورنر نے انہیں ریاست کی ایک ہردلعزیز شخصیت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ لوئیس ایک امریکی ہیرو تھے اور وہ ان تمام لوگوں کے دوست تھےجو ایک بہتر، منصفانہ اور متحد معاشرہ تشکیل دینا چاہتے تھے۔


جمعرات کی الوداعی رسومات سے پہلے جان لوئیس کی زندگی اور ان کے کارناموں کو سراہنے کے لیےکئی تقریبات منعقد کی گئیں۔

ان کے جسد خاکی کو ایلاباما ریاست میں سیلما کے اس مشہور پل پر سے لے جایا گیا جہاں انہوں نے 55 سال قبل اس مارچ میں حصہ لیا جس میں شرکا نے سیاہ فام امریکیوں اور دوسری اقلیتوں کے لیے ووٹ دینے کے حق کی خاطر آواز بلند کی۔

جان لوئیس امریکی تاریخ کے ایک ایسے موڑ پر رخصت ہوئے ہیں، جب سیاہ فام امریکی جارج فلائیڈ کی 25 مئی کو منی سوٹا پولیس کی تحویل میں ہلاکت کے بعد امریکہ کو پھر سے اپنے نسلی امتیاز کے ماضی کا سامنا ہے۔