بین الاقوامی برادری کی مدد سے حکومتِ اردن پناہ گزینوں کے ریلے کو پناہ دینے کے کام میں مصروف ہے
واشنگٹن —
اردن نے شام سے آنے والے 400000افراد کو پناہ دے رکھی ہے، جو دو برس سے جاری تنازع کے نتیجے میں شام سے بھاگ نکلے ہیں، اور آئے دِن اُن کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
جنوبی اردن کے علاقے کرک کی غریب آبادی سخت چیلنج کا سامنا کر رہی ہے۔ یہاں پہلی ہی تقریباً 10000شامی پناہ گزیں آچکے ہیں۔ اِن میں سےمتعدد افراد پناہ گزیں کے طور پر رجسٹر تک نہیں ہوئے اور وہ مقامی برادریوں میں ضم ہو چکےہیں۔
چھ ماہ قبل، طارق اپنے خاندان کے ہمراہ حمص شہر سےیہاں پہنچے۔ اب وہ کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ طارق کو خوراک، تعلیم اور سب سے بڑھ کر، صحت کے بارے میں پریشانی لاحق ہے۔
اُن کے والد فالج کا شکار ہوئے، اُن کے تین بھائی بہنوں کو خون کا عارضہ لاحق ہے، جب کہ اُن کے بچوں کو عملِ جراحی کی ضرورت ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ، اردن میں ادویات مہنگے داموں بک رہی ہیں، اور ایک پناہ گزیں کے لیے دوائیاں خریدنا ہماری پہنچ سے باہر ہے۔ بس ایک ہی چیز ہمارے بس میں ہے اوروہ ہے مکان کا کرایہ۔
طارق اور اُن جیسےدیگر کئی شامی پناہ گزینوں نے مدد کےلیے علاقے کےنجی اسپتالوں کا رُخ کیا، جِس میں اطالوی اسپتال بھی شامل ہے جسے ’کیتھولک ‘ عیسائی راہبائیں چلاتی ہیں۔ کئی سالوں سے یہ راہبائیں ہمسایہ ملکوں سے آنے والے پناہ گزینوں کی امداد کرتی آئی ہیں، جِن میں عراق سے آنے والے پناہ گزیں بھی شامل ہیں۔
لیکن، سسٹر السیندرا فومانگلی کا کہنا ہے کہ اُن کےپاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ شام سے آنے والے پناہ گزینوں کے نئے ریلے کی دیکھ بھال کرپائیں۔
اُن کے بقول، ہم ہنگامی نوعیت کےکیسز کو ہی دیکھ رہے ہیں، کیونکہ ہماری مالی صورتِ حال ایسی نہیں کہ ہم امدادی کام کو وسیع تر کر سکیں۔ اِس لیے، ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم صرف ہنگامی نوعیت کے کیسز، خصوصی طور پر خواتین اور بچوں کی صحت کے معاملات کو دیکھیں گے۔
اُن کےالفاظ میں، تمام پناہ گزینوں کی دیکھ بھال کےلیے ضروری ہے کہ اسپتال کی مالی اعانت کی جائے۔
اردن کے زتاری پناہ گزیں کیمپ میں شام سے آنے والے ایک لاکھ سے زائد افراد موجود ہیں، جب کہ ہزاروں افراد ملک بھر کے دیہی مراکز میں ٹھہرے ہوئے ہیں، خاص طور پر دارالحکومت عمان میں۔
بین الاقوامی برادری کی مدد سے حکومتِ اردن پناہ گزینوں کے ریلے کو پناہ دینے کے کام میں مصروف ہے۔
تانیا کسرلی کا تعلق برطانوی ریڈ کراس سے ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ شام سےامنڈ آنے والے پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کے باعث ملک پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔
کسرلی کہتی ہیں کہ پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعدا کےباعث اردن کے قدرتی وسائل پر بوجھ پڑ رہا ہے۔ اِس کی وجہ سے کھانے پینےاور مکان کے کرائے کی قیمتیں بڑھ چکی ہیں۔ یہ اعداد و شمار اندازوں سے کہیں زیادہ ہیں جب کہ اردن کو ویسے ہی کئی مسائل کا سامنا ہے۔
ادھر شام کا تنازعہ ختم ہونے کے آثار نہیں، ایسے میں اردن کی برادریاں جو کچھ اُن کی بساط میں ہے، کرنے کے لیے آمادہ دکھائی دیتی ہیں۔
جنوبی اردن کے علاقے کرک کی غریب آبادی سخت چیلنج کا سامنا کر رہی ہے۔ یہاں پہلی ہی تقریباً 10000شامی پناہ گزیں آچکے ہیں۔ اِن میں سےمتعدد افراد پناہ گزیں کے طور پر رجسٹر تک نہیں ہوئے اور وہ مقامی برادریوں میں ضم ہو چکےہیں۔
چھ ماہ قبل، طارق اپنے خاندان کے ہمراہ حمص شہر سےیہاں پہنچے۔ اب وہ کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ طارق کو خوراک، تعلیم اور سب سے بڑھ کر، صحت کے بارے میں پریشانی لاحق ہے۔
اُن کے والد فالج کا شکار ہوئے، اُن کے تین بھائی بہنوں کو خون کا عارضہ لاحق ہے، جب کہ اُن کے بچوں کو عملِ جراحی کی ضرورت ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ، اردن میں ادویات مہنگے داموں بک رہی ہیں، اور ایک پناہ گزیں کے لیے دوائیاں خریدنا ہماری پہنچ سے باہر ہے۔ بس ایک ہی چیز ہمارے بس میں ہے اوروہ ہے مکان کا کرایہ۔
طارق اور اُن جیسےدیگر کئی شامی پناہ گزینوں نے مدد کےلیے علاقے کےنجی اسپتالوں کا رُخ کیا، جِس میں اطالوی اسپتال بھی شامل ہے جسے ’کیتھولک ‘ عیسائی راہبائیں چلاتی ہیں۔ کئی سالوں سے یہ راہبائیں ہمسایہ ملکوں سے آنے والے پناہ گزینوں کی امداد کرتی آئی ہیں، جِن میں عراق سے آنے والے پناہ گزیں بھی شامل ہیں۔
لیکن، سسٹر السیندرا فومانگلی کا کہنا ہے کہ اُن کےپاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ شام سے آنے والے پناہ گزینوں کے نئے ریلے کی دیکھ بھال کرپائیں۔
اُن کے بقول، ہم ہنگامی نوعیت کےکیسز کو ہی دیکھ رہے ہیں، کیونکہ ہماری مالی صورتِ حال ایسی نہیں کہ ہم امدادی کام کو وسیع تر کر سکیں۔ اِس لیے، ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم صرف ہنگامی نوعیت کے کیسز، خصوصی طور پر خواتین اور بچوں کی صحت کے معاملات کو دیکھیں گے۔
اُن کےالفاظ میں، تمام پناہ گزینوں کی دیکھ بھال کےلیے ضروری ہے کہ اسپتال کی مالی اعانت کی جائے۔
اردن کے زتاری پناہ گزیں کیمپ میں شام سے آنے والے ایک لاکھ سے زائد افراد موجود ہیں، جب کہ ہزاروں افراد ملک بھر کے دیہی مراکز میں ٹھہرے ہوئے ہیں، خاص طور پر دارالحکومت عمان میں۔
بین الاقوامی برادری کی مدد سے حکومتِ اردن پناہ گزینوں کے ریلے کو پناہ دینے کے کام میں مصروف ہے۔
تانیا کسرلی کا تعلق برطانوی ریڈ کراس سے ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ شام سےامنڈ آنے والے پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کے باعث ملک پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔
کسرلی کہتی ہیں کہ پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعدا کےباعث اردن کے قدرتی وسائل پر بوجھ پڑ رہا ہے۔ اِس کی وجہ سے کھانے پینےاور مکان کے کرائے کی قیمتیں بڑھ چکی ہیں۔ یہ اعداد و شمار اندازوں سے کہیں زیادہ ہیں جب کہ اردن کو ویسے ہی کئی مسائل کا سامنا ہے۔
ادھر شام کا تنازعہ ختم ہونے کے آثار نہیں، ایسے میں اردن کی برادریاں جو کچھ اُن کی بساط میں ہے، کرنے کے لیے آمادہ دکھائی دیتی ہیں۔