واشنگٹن —
امریکہ نے کہا ہے کہ وہ اب بھی شمالی شام میں نو فلائی زون قائم کرنے کے بارے میں غور کر رہا ہے کیوں کہ شام اور ترکی کی سرحد پر جو گولہ باری ہو رہی ہے اس سے دونوں طرف کے سویلین باشندوں کے لیے خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ واشنگٹن کو یہ تشویش بھی ہے کہ ایران اور حزب اللہ، شام کے صدر بشا رالاسد کے لیے اپنی حمایت میں اضافہ کر رہے ہیں ۔
شام نے ترکی کے ساتھ اپنی سرحد پر ٹینکوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ شام اور ترکی کے درمیان گولہ باری سے تشدد کے پھیل جانے کا خطرہ بڑھ گیا ہے ۔
امریکی محکمۂ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نلینڈ کہتی ہیں’’ترکوں کا رد عمل بہت معقول رہا ہے۔ جب کبھی سر حد پار سے حملہ ہوتا ہے، وہ فوری طور پر اور اسی تناسب سے جواب دیتے ہیں ۔یہ بڑی خطرناک صورتِ حال ہے۔ہم مسلسل یہی بات کہتے رہے ہیں کہ اس جھگڑ ے کے سرحدوں کے باہر پھیل جانے کا خطرہ موجود ہے۔‘‘
یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے تجزیہ کاراسٹیو ہیڈمن کہتے ہیں کہ ترکی کی جوابی کارروائی کا مقصد سرحد کی سیکورٹی تک محدود نہیں ہے۔ ’’صاف ظاہر ہے کہ ترکی کی حکومت کی کوشش یہ ہے کہ سیاسی توازن کو تبدیل کیا جائے اور نہ صرف اسد حکومت پر بلکہ بین الاقوامی برادری پر زیادہ دباؤ ڈالا جائے اور یہ بتایا جائے کہ اس جھگڑے میں کیا کچھ داؤ پر لگا ہواہے، اور واضح کیا جائے کہ بین الاقوامی برادری نے اب تک جو کچھ کیا ہے، اس سے بہت زیادہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔‘‘
اب جب کہ ترکی میں شام کے 100,000 سے زیادہ پناہ گزیں پہنچ چکے ہیں، واشنگٹن اس امکان پر غور کر رہا ہے کہ شمالی شام کے ان علاقوں میں جو اسد کے مخالفین کے کنٹرول میں ہیں، نو فلائی زون قائم کر دیا جائے ۔ محکمۂ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نلینڈ کہتی ہیں’’ہم اپنے شراکت داروں سے مسلسل بات چیت کر رہے ہیں کہ بعض لوگوں نے جو اقدامات تجویز کیے ہیں، جن میں نو فلائی زون بھی شامل ہے، اس میں کیا چیزیں ، کب اور کیسے شامل کی جائیں، لیکن ہم نے اس مرحلے پر اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے ۔‘‘
اسٹیو ہیڈمن کہتے ہیں کہ اسد یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ نو فلائی زون سے ان کے باغی مخالفین کو زبردست فائدہ پہنچے گا۔ ’’شام اور ترکی کی سرحد پر اس جھگڑے میں اضافہ، شامیوں کے نزدیک شام کے اس مضبوط ارادے کا اظہار ہے کہ وہ ترکی کی بہتر فوجی طاقت سے، اور اس خطرے سے کہ نیٹو ترکی کی مدد کے لیے میدان میں نہ آ جائے ، مرعوب نہیں ہوگا۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ اسد حکومت کے حوصلے اس مدد کی وجہ سے بڑھ رہے ہیں جو اسے باہر کے ملکوں سے مل رہی ہے ، جب کہ باغیوں کے لیے بین الاقوامی فوجی امداد محدود ہے ۔
ہیڈمن کہتے ہیں’’وہ محسوس کرتے ہیں کہ روس، چین، ایران، اور حزب اللہ پوری طرح ان کے ساتھ ہیں۔ انہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ بین الاقوامی برادری حزبِ اختلاف کی مدد میں اضافہ کرنے میں پس و پیش سے کام لے رہی ہے ۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ اس طرح انہیں برتری حاصل ہے ۔‘‘
لبنان میں حزب اللہ کے دھڑے کا کہنا ہے کہ شام میں اس کے جنگجو موجود نہیں ہیں۔ پھر بھی، امریکہ کو شام میں حزب اللہ اور ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر تشویش ہے، اور اس نے اپنی اس تشویش کا اظہار روس سے کیا ہے ۔
محکمۂ خارجہ کی وکٹوریہ نلینڈ کہتی ہیں’’ماسکو کو ان چیزوں کے بارے میں تشویش ہے، اور انھوں نے اس تشویش کا اظہار کیا ہےکہ اسد کے بعد کیا ہو گا۔ ہم جو بات کہہ رہے ہیں وہ یہ ہے اسد کے بر سرِ اقتدار ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ ہو رہا ہے، ہر قسم کے انتہا پسندوں ، اور ایران کی طرف سے گڑ بڑ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو سرحدوں کے پار کے علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے ۔‘‘
وہ کہتی ہیں کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ رابطے میں ہے جو شامی باغیوں کو ہتھیار دے رہے ہیں تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ ہتھیار ایسے گروپوں کو نہ چلے جائیں جن میں انتہا پسند داخل ہو رہے ہیں۔
شام نے ترکی کے ساتھ اپنی سرحد پر ٹینکوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ شام اور ترکی کے درمیان گولہ باری سے تشدد کے پھیل جانے کا خطرہ بڑھ گیا ہے ۔
امریکی محکمۂ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نلینڈ کہتی ہیں’’ترکوں کا رد عمل بہت معقول رہا ہے۔ جب کبھی سر حد پار سے حملہ ہوتا ہے، وہ فوری طور پر اور اسی تناسب سے جواب دیتے ہیں ۔یہ بڑی خطرناک صورتِ حال ہے۔ہم مسلسل یہی بات کہتے رہے ہیں کہ اس جھگڑ ے کے سرحدوں کے باہر پھیل جانے کا خطرہ موجود ہے۔‘‘
یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے تجزیہ کاراسٹیو ہیڈمن کہتے ہیں کہ ترکی کی جوابی کارروائی کا مقصد سرحد کی سیکورٹی تک محدود نہیں ہے۔ ’’صاف ظاہر ہے کہ ترکی کی حکومت کی کوشش یہ ہے کہ سیاسی توازن کو تبدیل کیا جائے اور نہ صرف اسد حکومت پر بلکہ بین الاقوامی برادری پر زیادہ دباؤ ڈالا جائے اور یہ بتایا جائے کہ اس جھگڑے میں کیا کچھ داؤ پر لگا ہواہے، اور واضح کیا جائے کہ بین الاقوامی برادری نے اب تک جو کچھ کیا ہے، اس سے بہت زیادہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔‘‘
اب جب کہ ترکی میں شام کے 100,000 سے زیادہ پناہ گزیں پہنچ چکے ہیں، واشنگٹن اس امکان پر غور کر رہا ہے کہ شمالی شام کے ان علاقوں میں جو اسد کے مخالفین کے کنٹرول میں ہیں، نو فلائی زون قائم کر دیا جائے ۔ محکمۂ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نلینڈ کہتی ہیں’’ہم اپنے شراکت داروں سے مسلسل بات چیت کر رہے ہیں کہ بعض لوگوں نے جو اقدامات تجویز کیے ہیں، جن میں نو فلائی زون بھی شامل ہے، اس میں کیا چیزیں ، کب اور کیسے شامل کی جائیں، لیکن ہم نے اس مرحلے پر اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے ۔‘‘
اسٹیو ہیڈمن کہتے ہیں کہ اسد یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ نو فلائی زون سے ان کے باغی مخالفین کو زبردست فائدہ پہنچے گا۔ ’’شام اور ترکی کی سرحد پر اس جھگڑے میں اضافہ، شامیوں کے نزدیک شام کے اس مضبوط ارادے کا اظہار ہے کہ وہ ترکی کی بہتر فوجی طاقت سے، اور اس خطرے سے کہ نیٹو ترکی کی مدد کے لیے میدان میں نہ آ جائے ، مرعوب نہیں ہوگا۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ اسد حکومت کے حوصلے اس مدد کی وجہ سے بڑھ رہے ہیں جو اسے باہر کے ملکوں سے مل رہی ہے ، جب کہ باغیوں کے لیے بین الاقوامی فوجی امداد محدود ہے ۔
ہیڈمن کہتے ہیں’’وہ محسوس کرتے ہیں کہ روس، چین، ایران، اور حزب اللہ پوری طرح ان کے ساتھ ہیں۔ انہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ بین الاقوامی برادری حزبِ اختلاف کی مدد میں اضافہ کرنے میں پس و پیش سے کام لے رہی ہے ۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ اس طرح انہیں برتری حاصل ہے ۔‘‘
لبنان میں حزب اللہ کے دھڑے کا کہنا ہے کہ شام میں اس کے جنگجو موجود نہیں ہیں۔ پھر بھی، امریکہ کو شام میں حزب اللہ اور ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر تشویش ہے، اور اس نے اپنی اس تشویش کا اظہار روس سے کیا ہے ۔
محکمۂ خارجہ کی وکٹوریہ نلینڈ کہتی ہیں’’ماسکو کو ان چیزوں کے بارے میں تشویش ہے، اور انھوں نے اس تشویش کا اظہار کیا ہےکہ اسد کے بعد کیا ہو گا۔ ہم جو بات کہہ رہے ہیں وہ یہ ہے اسد کے بر سرِ اقتدار ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ ہو رہا ہے، ہر قسم کے انتہا پسندوں ، اور ایران کی طرف سے گڑ بڑ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو سرحدوں کے پار کے علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے ۔‘‘
وہ کہتی ہیں کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ رابطے میں ہے جو شامی باغیوں کو ہتھیار دے رہے ہیں تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ ہتھیار ایسے گروپوں کو نہ چلے جائیں جن میں انتہا پسند داخل ہو رہے ہیں۔