خیبرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار 'دی فرنٹیئر پوسٹ' کے مالک رحمت شاہ آفریدی کے انتقال سے اس خطے کی صحافت کا ایک باب بند ہو گیا ہے۔
ایسے وقت میں جب روسی افواج افغانستان میں داخل ہو چکی تھیں اور پشاور روس مخالف جہادی طاقتوں کا بیس کیمپ بن چکا تھا، آفریدی قبیلے سے تعلق رکھنے والے رحمت شاہ آفریدی نے پشاور سے ایک انگریزی روزنامے کا اجرا کیا جس نے افغانستان کے متعلق تحقیقی اور تازہ ترین رپورٹنگ کے باعث عالمی توجہ حاصل کی۔
'دی فرنٹیئر پوسٹ' کے ساتھ میرے تعلق کا آغاز نوے کی دہائی کے اوائل یعنی زمانہ طالبِ علمی میں 'دی جونئیر پوسٹ' کے لیے لکھنے والے کی حیثیت سے ہوا۔ بعد ازاں میں اسی گروپ کے پشتو روزنامے 'ھیواد' میں ایک کالم نگار کی حیثیت سے لکھتا رہا۔
پشاور کے علاقے صدر میں واقع 'دی فرنٹیئر پوسٹ' کی عمارت میں کئی بار مرحوم رحمت شاہ آفریدی سے ملاقات کا موقع ملا جن سے اکثر افغان جہاد کے مرکزی کرداروں اور سیاست دانوں کے قصے کہانیاں سننے کو ملتیں۔
پاکستان کے نام ور کارٹونسٹ محمد ظہور کی صحافتی زندگی کا آغاز بھی 'دی فرنٹیئر پوسٹ' سے ہوا۔ 'دی فرنٹیئر پوسٹ' کے کارٹون کافی بے باک ہوتے تھے۔ ظہور ، رحمت شاہ آفریدی کے بہت قریب رہے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ انہوں نے ان جیسا نڈر انسان نہیں دیکھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے محمد ظہور کا کہنا تھا کہ "وہ خطرناک حد تک بہادر انسان تھے۔ میں نے کئی بڑے اداروں میں کام کیا ہے۔ لیکن میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ میرے جو کارٹون 'دی فرنٹیئر پوسٹ' میں چھپے ان کا کسی دوسرے پاکستانی اخبار میں چھپنا تقریباً ناممکن تھا۔"
رحمت شاہ آفریدی کو ان کے قریبی ساتھی یہاں تک کہ اخبار کا اسٹاف بھی 'لالا' یعنی 'بڑا بھائی' کہہ کر پکارتا تھا۔
حالیہ عرصے میں وہ 'فرنٹیئر پوسٹ' کے حوالے سے فکر مند تھے جو اب بحران کا شکار ہو چکا ہے۔
احمد شاہ مسعود اور اُسامہ بن لادن سے قربتیں
آفریدی صاحب کی افغانستان میں شمالی اتحاد کے کمانڈر احمد شاہ مسعود کے ساتھ دوستی رہی تھی۔ بعد ازاں اُن کی القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن کے ساتھ بھی واقفیت ہوئی۔ افغان جہاد کے لگ بھگ تمام چنیدہ کمانڈرز کے ساتھ اُن کی شناسائی تھی۔
رحمت شاہ آفریدی کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے 1989 میں بے نظیر بھٹو کی حکومت گرانے کے لیے اُسامہ بن لادن سے 27 کروڑ روپے حاصل کیے تھے۔ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور اُن کی جماعت اس الزام کی تردید کرتی رہی ہے۔
خیبر پختونخوا سے ایک مضبوط اور آزاد اخبار کے اجرا کی خواہش خدائی خدمت گار تحریک کے بانی عبدالغفار خان کے صاحبزادے اور پشتو زبان کے بڑے شاعر خان عبدالغنی خان کی تھی۔
تاہم جب سابق گورنر فضل حق کی جانب سے خواہش کا اظہار کیا گیا کہ خیبر پختونخوا سے ایک انگریزی روزنامے کا اجرا صوبے کے لیے ضروری ہے تب 'دی فرنٹئیر پوسٹ' کے نام سے اس اخبار کا آغاز 25 فروری 1985 کو کیا گیا۔
یہ الگ بات ہے کہ فرنٹیر پوسٹ کی خبروں کے باعث گورنر فضل حق رحمت شاہ آفریدی سے کافی نالاں رہتے تھے۔ اس وقت کے ایک معتبر صحافی عزیز صدیقی کو اخبار کی ادارت سونپی گئی تھی۔
خیبر پختونخوا سے نکلنے والے اس اخبار کی شہرت اور طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ اخبار بعدازاں لاہور سے بھی نکالا گیا اور کئی بڑے صحافیوں کو شناخت دینے کا ذریعہ بنا۔
خیبر پختونخوا کے نام ور صحافی اور مصنف عقیل یوسفزئی نے نہ صرف رحمت شاہ آفریدی کے ساتھ کام کیا بلکہ ان کے بہت قریب رہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عقیل یوسفزئی کا کہنا تھا کہ مرحوم رحمت شاہ آفریدی ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ صرف ایک اخبار نہیں نکال رہے تھے بلکہ فرنٹیئر پبلی کیشنز کی جانب سے 150 سے زائد کتابیں بھی چھاپی گئیں۔
اُن کے بقول رحمت شاہ آفریدی نے 1994 میں خیبر پختونخوا کے وسائل کے حوالے سے ایک سیمینار منعقد کیا جس میں انہوں نے ملک بھر سے آئے قائدین اور دانش وروں کے سامنے خیبر پختونخوا کے حقوق کا مقدمہ رکھا۔
عقیل یوسفزئی کے مطابق رحمت شاہ آفریدی ہمیشہ چیلنجز کو پسند کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کا ادارہ مختلف اوقات میں بحرانوں کا شکار رہا۔
محمد ظہور کے مطابق "کئی بار ہمارے دفاتر پر حملے ہوئے۔ انہیں جلایا گیا۔ یہاں تک کہ توہینِ مذہب کے الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ رحمت شاہ آفریدی کے پاس ٹیم بھی بہت مخلص تھی۔ کبھی تو ایسا وقت بھی آتا کہ کئی کئی ماہ تنخواہ نہیں ملتی تھی۔ لیکن شاید ہی کسی نے رحمت شاہ آفریدی کو چھوڑنے کا سوچا ہو۔"
نوے کی دہائی کے آخری برسوں میں جب ملک میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی تو 'دی فرنٹیئر پوسٹ' پر شدید دباؤ تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب مرحوم رحمت شاہ آفریدی کو ہیروئن اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔
عقیل یوسفزئی کے مطابق یہ ایک سیاسی مقدمہ تھا کیوں کہ صوبائی حکومت کے نمائندے یہ اعتراف کر چکے تھے کہ ان پر رحمت شاہ آفریدی کی گرفتاری کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔
عقیل یوسفزئی کے مطابق سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرادری کو نواز حکومت اسلحے کے کسی اسکینڈل میں پھنسانا چاہتی تھی اور اس کے لیے مرحوم رحمت شاہ آفریدی پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ وہ ان کے خلاف گواہی دیں۔
اُن کے بقول رحمت شاہ آفریدی سختی سے انکار کر رہے تھے اور صوبائی حکومت ان کو گرفتار نہیں کر رہی تھی۔ اس لیے ایک پلاٹ کی خرید و فروخت کے سلسلے میں جب وہ لاہور گئے تو وہاں ان پر مقدمہ درج کرکے جیل بھیج دیا گیا۔
عقیل یوسفزئی کے مطابق لگ بھگ نو سال تک وہ قید میں رہے جس کی وجہ سے ان کا ادارہ بھی بحران کا شکار ہوا اور وہ خود بھی قید کے اثرات سے مکمل طور پر باہر نہیں نکل پائے۔