سابق وزیرِ اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا معاملہ ایک بار پھر سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیرِ سماعت ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے 2011 میں اپنے دورِ صدارت میں اس معاملے پر صدارتی ریفرنس اعلیٰ عدالت بھجوایا تھا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے نو رُکنی بینچ نے منگل کو اس ریفرنس کی سماعت کی جسے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر براہِ راست نشر کیا گیا۔
عدالت نے منگل کو فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالتی معاونین مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ کیس کی سماعت جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کر دی گئی ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور سابق صدر آصف علی زرداری بھی منگل کو سماعت کے دوران کمرۂ عدالت میں موجود تھے۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ یہ ریفرنس عدلیہ کے لیے امتحان اور خون کے دھبے صاف کرنے کا موقع ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے سیاسی مخالف احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے الزام میں 1978 میں سزائے موت سنائی گئی تھی اور چار اپریل 1979 کو اُنہیں پھانسی کے تختے پر لٹکایا گیا۔
پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیتے ہوئے اسے اس وقت کی فوجی حکومت کے دباؤ کا نتیجہ قرار دیتی رہی ہے۔
ذوالفقار بھٹو کی سزا کے خلاف صدارتی ریفرنس ہے کیا؟
پاکستان پیپلز پارٹی کا مؤقف رہا ہے کہ پاکستان کو 1973 کا آئین دینے اور جوہری پروگرام کی بنیاد رکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو کو ایک جھوٹے مقدمے میں سزائے موت سنائی گئی، لہذٰا سپریم کورٹ آف پاکستان اس معاملے کا جائزہ لے اور تاریخ درست کرے۔
سن 2011 میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ آف پاکستان بھجوایا جس میں مختلف سوالات اُٹھائے گئے تھے۔
آئینِ پاکستان صدرِ مملکت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ آرٹیکل 186 کے تحت عوامی اہمیت کے معاملے کو سپریم کورٹ بھجوا کر اس پر رائے طلب کر سکتا ہے۔
ریفرنس میں یہ سوال اُٹھائے گئے ہیں کہ کیا یہ فیصلہ غیر جانب دارانہ تھا؟ کیا قرآنی احکامات کے مطابق سزائے موت دینا درست ہے؟ کیا سزائے موت سنانے کے لیے ثبوت کافی تھے؟ کیا اس مقدمے میں سابق وزیرِ اعظم کا ٹرائل بنیادی انسانی حقوق کے مطابق تھا؟
صدارتی ریفرنس میں ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت برقرار رکھنے والے سپریم کورٹ کے جج جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔
ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ جسٹس نسیم حسن شاہ نے 'جیو نیوز' کے پروگرام 'جواب دہ' میں اعتراف کیا کہ یہ فیصلہ سنانے کے لیے ججز پر اس وقت کی مارشل لا حکومت کا دباؤ تھا۔
واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے پانچ رُکنی بینچ نے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنائی تھی جب کہ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ برقرار رکھا تھا۔
جسٹس نسیم حسن شاہ سپریم کورٹ کے اس بینچ میں شامل تھے جس نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔ بعدازاں جسٹس نسیم 1993 میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب پر بھی فائز ہوئے۔
صدارتی ریفرنس پر پہلی سماعت جنوری 2012 میں اس وقت کے چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری کی عدالت میں ہوئی تھی جب کہ اس کیس کی آخری سماعت نومبر 2012 میں ہوئی تھی۔ اب ایک دہائی سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد اس کیس کی دوبارہ سماعت ہوئی ہے۔
قتل کا وہ مقدمہ جو بھٹو کی پھانسی کا سبب بنا
منگل کو کیس کی سماعت کے دوران نواب محمد احمد خان قصوری کے صاحبزادے احمد رضا قصوری بھی عدالت میں پیش ہوئے جو ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کا سبب بننے والے قتل کے مقدمے کے مدعی تھے۔
یہ واقعہ 10 اور 11 نومبر 1974 کی درمیانی شب پیش آیا جب احمد رضا قصوری اپنے والد نواب محمد احمد خان قصوری اور اہلِ خانہ کے ہمراہ لاہور کے علاقے شادمان میں ایک شادی کی تقریب کے بعد گھر کے لیے روانہ ہوئے تھے۔
شاہ جمال چوک پر اُن کی گاڑی پر اندھا دُھند فائرنگ شروع ہوئی جس کے نتیجے میں نواب احمد خان قصوری شدید زخمی ہوئے اور بعدازاں لاہور کے کرسچن اسپتال میں وہ جان کی بازی ہار گئے۔
احمد رضا قصوری کا مؤقف رہا ہے کہ بھٹو سیاسی مخالفت کی وجہ سے اُنہیں قتل کرانا چاہتے تھے، لیکن اُن کے والد فائرنگ کا نشانہ بن گئے۔
پولیس کی جانب سے اس وقت کے وزیرِ اعظم کے خلاف مقدمے کے اندراج میں لیت و لعل سے کام لیا گیا، تاہم بعدازاں بھٹو کو اس مقدمے میں نامزد کر دیا گیا۔
جولائی 1977 تک، جب تک ذوالفقار علی بھٹو وزیرِ اعظم رہے، اس مقدمے کا فیصلہ نہ ہو سکا۔ تاہم مارشل لگتے ہی ستمبر 1977 میں اس کیس کا چالان پیش کر کے لاہور ہائی کورٹ میں بھٹو کا ٹرائل شروع ہو گیا۔
پیپلزپارٹی کا یہ بھی الزام رہا ہے کہ سیشن کورٹ میں ٹرائل کے بجائے بھٹو کا ٹرائل لاہور ہائی کورٹ میں کرنا بھی غیر قانونی تھا۔
مارچ 1978 میں ذوالفقار علی بھٹو کو اس کیس میں سزائے موت سنائی گئی جب کہ فروری 1979 میں سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو برقرار رکھا اور پھر چار اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دی گئی۔
فورم