رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے پاکستان میں پرتشدد مظاہروں صورت حال پر جمعرات کو جاری ہونے والی اپنی رپورٹ میں ان واقعات کا ذکر کیا ہے جن کا سامنا صحافیوں کو اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی میں پیش آ یا۔
رپورٹ میں ریڈیو پاکستان پشاور کی مظاہرین کے ہاتھوں تباہی کی تصویرکشی کرتے ہوئے کہا گیاہے کہ تباہ شدہ اسٹوڈیوز، جلے ہوئے مائیکروفون، ٹیپ ریکارڈروں سے اٹھتا ہوا دھواں 10 مئی کو ہونے والے پرتشدد حملے کی کہانی سنا رہے ہیں ۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ تقریباً 200 مظاہرین نے صبح کے وقت ریڈیو سٹیشن کی عمارت کے داخلی دروازے پر دھاوا بولا ۔ اسٹیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر اعجاز خان نے ایک بیان میں بتایا حملہ آوروں نے استقبالیہ میں توڑ پھوڑ کرنے کے بعد کئی اسٹوڈیوز کے فرنیچر کو تباہ کر دیا۔
رپورٹ کے مطابق دوپہر کے قریب، مزید کئی سو مظاہرین نے ایک نیا حملہ شروع کیا، جس میں عمارت کو آگ لگا دی گئی، کمپیوٹرز اور دیگر آلات تباہ کر دیے گئے، اسٹیشن میں محفوظ کی گئی تاریخی ریکارڈنگ کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا، اور کمپاؤنڈ میں کھڑی تین گاڑیوں کو آگ لگا دی۔ اسٹیشن کے ملازمین میں سے ایک کو شدید جھلسنے کی وجہ سے اسپتال میں داخل ہونا پڑا۔
اس سے ایک روز پہلے پشاور میں احتجاجی مظاہروں کی کوریج کرنے والے صحافیوں پر مظاہرین نے حملہ کیا۔ ڈان نیوز ٹی وی، آج نیوز، خیبر نیوز اور ایکسپریس نیوز کی سیٹلائٹ ٹرانسمیشن گاڑیوں پر پتھراؤ کیا گیا اور لاٹھیوں سے بھی حملے کیے گئے۔
SEE ALSO: عمران خان کی حراست کے خلاف پرتشدد مظاہروں کا دوسرا روز، متعدد افراد ہلاک و زخمی, فواد چوہدری گرفتاررپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈان نیوز ٹی وی کی گاڑی کو بری طرح نقصان پہنچایا گیا اور اس میں سوار ایک صحافی عارف حیات اس حملے میں زخمی ہو گیا۔ اسی طرح ایکسپریس نیوز کے ایک صحافی وشال خان پر بھی مظاہرین نے حملہ کیا۔
رپورٹ کے مطابق یہ مظاہرے 8 مئی کو سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد شروع ہوئے جن میں سویلین اور فوجی اتھارٹی کی علامتوں کو نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دوسری جانب پولیس نے کم از کم دو صحافیوں کو گرفتار کر لیا ہے جن کے میڈیا آؤٹ لیٹس عمران خان کی پارٹی کے قریبی سمجھے جاتے ہیں۔ بول نیوز ٹی وی کے اینکر عمران ریاض خان کو آج صبح سیالکوٹ ایئرپورٹ پر "تشدد پر اکسانے" کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ جب کہ تقریباً اسی وقت سماء ٹی وی کے اینکر آفتاب اقبال کو لاہور میں ان کے گھر سے حراست میں لیا گیا۔
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے انٹرنیٹ کو بندش اور سوشل میڈیا سروسز تک رسائی محدود کرنے کی بھی مذمت کی ہے۔