پاکستان میں میڈیا کی مختلف تنظیموں اور سینئر صحافیوں نے وزیرِ اعظم عمران خان کے اس بیان کی مذمت کی ہے جس میں اُنہوں نے میڈیا پر غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔
میڈیا جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی ہتکِ عزت کے قانون کے تحت عدالت سے رجوع کرنے کا حق رکھتی ہے۔ وزیرِاعظم ان میڈیا اداروں کا نام لیں جو ملکی اور غیرملکی امداد لے رہے ہیں، اس کے ساتھ ان کے خلاف ثبوت دیں ورنہ معافی مانگیں۔
ایک طرف حکومت میڈیا اداروں پر الزام عائد کر رہی ہے جب کہ دوسری جانب نجی ٹی نیو نیوز نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے اینکر صحافی طلعت حسین کو آف ائیر کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے شدید دباؤ ڈالا جا رہا ہے جب کہ ان کے سرکاری اشتہارات بھی بند کر دیے گئے ہیں۔
وزیرِ اعظم پاکستان کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز گل نے ایسے کسی بھی دباؤ کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اگر دباؤ ڈالنے کے حوالے سے کوئی ثبوت ہے تو فوری طور پر پیش کیے جائیں۔
وزیراعطم عمران خان نے چند روز قبل مالاکنڈ میں عوامی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ اس وقت کئی میڈیا ہاؤسز کو پیسہ چلا رہا ہے اور کئی باہر سے پیسہ لے رہے ہیں۔ وزیرِاعظم کا میڈیا کے بارے میں کہنا تھا کہ یہ ان ڈاکوؤں کے ساتھ کھڑے ہیں جو لوگوں کا ضمیر خرید رہے ہیں، قوم ان کو دیکھ رہی ہے، قوم میڈیا کا فیصلہ بھی کر رہی ہے کہ کون بکاؤ ہیں۔
وزیرِاعظم کے اس خطاب پر مختلف صحافتی تنظیموں کی طرف سے شدید ردِعمل سامنے آیا ہے، میڈیا کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے اس بارے میں کہا ہے کہ ان جھوٹے اور ہتک آمیز الزامات کو ثابت کریں ورنہ عدالت سے رجوع کرنے کاحق محفوظ رکھتے ہیں۔
جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے وزیرِاعظم سے کہا کہ میڈیا اور صحافی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں جس کی آئین نے ضمانت دی ہے، عمران خان سے درخواست ہےکہ وہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے ایسے بیانات نہ دیں۔
پی ایف یوجے کے سیکرٹری جنرل ناصر زیدی کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ بغیر ثبوت کے اتنے بڑے الزامات لگائیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ناصر زیدی کا کہنا تھا کہ تمام ایجنسیاں حکومت کے ماتحت ہیں، اگر کسی میڈیا ہاؤس نے کوئی فنڈنگ لی ہے تو عدالتی تحقیقات کرا لیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ جب سے تحریکِ انصاف کی حکومت آئی ہے، انہوں نے میڈٰیا کے خلاف ایسا ہی رویہ رکھا ہوا ہے۔ ایسے قوانین لائے جارہے ہیں جن سے میڈیا کو دباؤ میں لایا جاسکے۔
Your browser doesn’t support HTML5
خیال رہے کہ حکومت نے حال ہی میں پاکستان الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) کے نام سے ایک نیا قانون متعارف کرایا ہے جس میں فیک نیوز پر صحافیوں کو بھاری جرمانے اور سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔
سینئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر کہتے ہیں کہ میڈیا پر بیرونی فنڈنگ لینے کا الزام کوئی نیا نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ "جب 20 برس قبل میں نے جیو نیوز جوائن کیا تو اس وقت بھی مختلف افراد اور اداروں کی طرف سے مجھے منع کیا گیا کہ جیو ٹی وی کو جوائن نہ کریں کیونکہ یہ فارن فنڈنگ سے چل رہا ہے، میں نے اس بارے میں ان سے کہا ہے کہ اگر ایسا ہے تو اس کا کوئی ثبوت دیں، لیکن 20 برس گزرنے کے بعد بھی آج تک کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا۔'
حامدمیر نے کہا کہ یہ الزام ہر دور حکومت میں لگایا جاتا ہے، سپریم کورٹ میں اس بارے میں پٹیشن دائر کی اور میں نے عدالت سے درخواست کی کہ اگر کسی چینل کو بیرونی فنڈنگ مل رہی ہے تو اس پر پابندی لگائی جائے۔ اس کیس میں پیمرا اور وزارت اطلاعات نے سپریم کورٹ میں لکھ کر دیا کہ کسی ادارے کو فارن فنڈنگ کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اگر کسی ٹی وی چینل کو کوئی غیرملکی طاقت فنڈ دے رہی ہے اور وزیراعظم ایسا دعویٰ کررہا ہے تو ان کو چاہیے کہ اس کا ثبوت دیں وگرنہ ایسا سمجھا جائے گا کہ ہمارا وزیراعظم جھوٹ بول رہا ہے۔
سینئر صحافی نصراللہ ملک کے بقول، ''میڈیا کے سب سے بڑے بینیفشری عمران خان خود ہیں۔ اگر اُن کے پاس ثبوت ہیں کہ میڈیا کو فارن فنڈنگ مل رہی ہے تو وہ ایسے اداروں کے خلاف کارروائی کریں''۔
نیو نیوز پر دباؤ
دوسری جانب نجی ٹی وی چینل نیو نیوز نے دعویٰ کیا ہے کہ ان پر صحافی اور اینکر پرسن طلعت حسین کا پروگرام بند کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے شدید دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ چینل کا دعویٰ ہے کہ طلعت حسین کو آف ائیر نہ کرنے پر ان کے اخبار اور ٹی وی کے اشتہارات بند کردیے گئے ہیں اور انہیں کہا جا رہا ہے کہ طلعت حسین کو برطرف کیا جائے بصورت دیگر اشتہارات جاری نہیں کیے جائیں گے۔
وزیرِ اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز گل نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کون سا دباؤ ڈالا جا رہا ہے کس کی طرف سے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے، اگر ایسا کچھ ہے تو ثبوت سامنے لایا جائے ۔
نیو نیوز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نصر اللہ ملک نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم پر وزارتِ اطلاعات کے افسران کی جانب سے مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ طلعت حسین کو آف ایئر کیا جائے بصورتِ دیگر اشتہارات بند کر دیے جائیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
نصراللہ ملک نے کہا کہ ہمیں حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ طلعت حسین کو حکومت نے'' بین کر رکھا ہے''۔ لیکن جب ہم نے طلعت حسین کو 'بین' کرنے کا نوٹی فکیشن یا سرکاری احکامات طلب کیے تو کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
اُن کے بقول ہمیں بتایا گیا کہ طلعت حسین کو پیمرا نے 'بین' کر رکھا ہے، لیکن پیمرا نے اس بات سے مکمل انکار کیا۔ اب ہمارے اشتہارات بند ہیں، ہم احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے، لیکن طلعت حسین سمیت کسی شخص کو آف ائیر نہیں کیا جائے گا۔
نصراللہ ملک کا کہنا تھا کہ وہ صحافتی تنظیموں کے ساتھ رابطے میں ہیں، ہم صرف اتنا کہتے ہیں کہ ہمیں دباؤ میں لانے کے بجائے میرٹ پر اشتہارات دیے جائیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اخبارات کا بزنس پہلے ہی کم ہے جب کہ نیوز چینلز کے اشتہارات کے ریٹ بھی بہت کم ہیں جس کی وجہ سے صحافتی ادارے مالی مشکلات سے دوچار ہیں۔
نصراللہ ملک نے ہمیں مثبت رپورٹنگ کرنے کا کہا جاتا ہے جبکہ دنیا بھر میں حکمران میڈیا کو کہتے ہیں کہ وہ ان پر تنقید کریں۔ اس وقت میڈیا پر سب سے زیادہ دباؤ یہ ہے کہ پبلک میں جا کر کوئی پروگرام نہ کیا جائے۔
سینئر صحافی حامد میر نے طلعت حسین کو آف ائیر کرنے کے لیے دباؤ کی مذمت کی اور کہا کہ چند ماہ قبل جب میں مختلف ٹی وی چینلز پر جارہا تھا تو حکومت کی طرف سے ان چینلز پر دباؤ ڈالا جاتا تھا، میں آج ٹی وی پر ایک شو میں گیا تو وہاں پر فواد چوہدری نے چینل کے مالک کو فون کرکے میری شو میں شرکت پر اعتراض کیا۔
پاکستان کی حکومت ماضی میں ان تمام الزامات کی تردید کرتی رہی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سےآزادی اظہار رائے اور کسی چینل پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان مختلف مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ میڈیا کو جتنی آزادی اُن کے دور میں ملی، اتنی ماضی میں کبھی نہیں ملی۔
حکومتی وزرا بھی میڈیا پر کسی قسم کے دباؤ یا صحافیوں کو ہراساں کرنے کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔