صحافیوں کے تحفظ کی تنظیم 'کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس' (سی پی جے) نے اپنی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ رواں سال دنیا بھر میں 21 صحافی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران قتل کر دیے گئے۔ ادارے کے مطابق گزشتہ سال یہ تعداد 10 تھی۔
'سی پی جے' کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جوئیل سائمن کا کہنا ہے کہ صحافیوں کے قتل کے واقعات میں اضافہ تشویش ناک ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ یکم دسمبر 2020 تک کم از کم 274 صحافی قید میں تھے جب کہ گزشتہ سال یہ تعداد 250 سے زائد تھی۔
دوسری جانب افغانستان میں بھی اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کے واقعات کے ساتھ اب صحافیوں پر حملوں میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ دو ماہ کے دوران کم از کم تین صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا۔
21 دسمبر کو غزنی میں رحمت اللہ نیک زادہ کو نامعلوم حملہ آوروں نے اس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا جب وہ اپنے گھر سے مسجد جا رہے تھے۔ رحمت اللہ نیک زادہ بطور فری لانس صحافی مختلف عالمی اداروں کے لیے کام کرتے تھے۔
مقامی پولیس کے مطابق رحمت اللہ کو ایک ایسی بندوق سے قتل کیا گیا جس کے آگے سائلنسر لگا ہوا تھا اور اس طرح حملہ آور موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
اب تک کسی بھی گروپ نے ان کے قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ تاہم طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس قتل کو بزدلانہ اقدام قرار دیا تھا۔
یاد رہے کہ صوبہ غزنی کا وسیع علاقہ طالبان کے زیرِ اثر ہے۔
افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کے ایجنڈے پر اتفاق کے باوجود پُرتشدد کارروائیوں میں کمی واقع نہیں ہو رہی ہے جب کہ فریقین ایک دوسرے کو اس کا ذمہ دار ٹھیراتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس سے قبل خاتون صحافی ملالئی میوند کو جلال آباد میں ان کے ڈرائیور سمیت ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس واقعے کی ذمہ داری دہشت گرد تنظم دولتِ اسلامیہ (داعش) نے قبول کی تھی۔
گزشتہ ماہ 'ریڈیو لبرٹی فری یورپ' کے نمائندے الیاس داعی لشکر گاہ میں ہونے والے ایک کار بم دھماکہ میں ہلاک ہو گئے تھے۔
صحافت کی آزادی کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم 'رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز' نے اس صورتِ حال کو تشویش ناک قرار دیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے تنظیم کے پاکستان میں نمائندہ اقبال خٹک نے بتایا کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد صحافیوں کو کام کرنے کی آزادی ملی تھی جس کا ماضی میں تصور بھی نہیں تھا۔
تاہم اُن کے بقول افغانستان میں ہونے والی پرتشدد کارروائیوں کا نشانہ اب صحافی بھی بن رہے ہیں۔ ان واقعات میں وہ لوگ ملوث ہیں جو افغانستان اور دنیا بھر میں آزاد میڈیا کے خلاف ہیں۔
اقبال خٹک کا مزید کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں قیامِ امن کے ساتھ ساتھ میڈیا کی آزادی بھی بہت ضروری ہے۔
ان کے بقول صحافیوں پر پے درپے حملوں سے واضح ہے کہ حملہ آور آزاد صحافت پر یقین نہیں رکھتے۔
اقبال خٹک نے واضح کیا کہ بدقسمتی سے جنوبی ایشیا میں ماسوائے سری لنکا کے، جہاں خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد امن بحال ہوا ہے، پاکستان، افغانستان اور حتیٰ کہ بھارت میں بھی صحافیوں کے لیے بہت مشکلات ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ان ممالک نے دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح ترقی کرنی ہے تو صحافت کی آزادی پر یقین کرنا ہو گا۔
افغانستان کے لیے اقوامِ متحدہ کی خصوصی ایلچی ڈیبرا لیون نے ایک ورچوئل کانفرنس کے دوران بتایا کہ افغانستان صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملک گردانا جاتا ہے۔
اُن کے بقول صرف 2020 میں چھ صحافی قتل ہو چکے ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے 11 کارکن ہلاک جب کہ کئی اس سال زخمی بھی ہوئے ہیں۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں مقیم سینئر صحافی بلال سروری کے مطابق تواتر کے ساتھ صحافیوں پر ہونے والے حملوں کے بعد صحافیوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ یہ نہ صرف حکومتی بلکہ امن کے حوالے سے ہر گروہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے واقعات کی روک تھام کو ممکن بنانے میں فعال کردار ادا کرے۔
بلال سروری کا مزید کہنا تھا کہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ججز، پراسیکیوٹرز، سول سوسائٹی کے اراکین کے بعد اب صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
حکومت اور انٹیلی جنس اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ یہ ان کی نا اہلی کو ظاہر کرتا ہے۔ کیوں کہ وہ ابھی تک اس خطرناک عمل کا سراغ لگانے میں ناکام ہیں یا پھر اس کی تفصیلات عوام کے سامنے نہیں لاتے۔
بلال کہتے ہیں کہ افغانستان کی تاریخ میں بڑے کاروباری افراد، سیاسی شخصیات اور سیکیورٹی اداروں کے اعمال سے ماضی میں کبھی پردہ نہیں اُٹھایا گیا۔ تاہم یہ آزاد میڈیا ہی تھا جس نے حالیہ عرصے میں یہ کام کیا۔
اُن کے بقول صحافیوں کے تحفظ کی ذمہ داری ریاست پر ہے تاہم وہ طالبان پر بھی زور دیتے ہیں کہ وہ صحافیوں کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کریں اور یہ سراغ لگانے میں مدد دیں کہ ان واقعات میں کون ملوث ہے۔