صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم کی جانب سے9 دسمبر کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں برس اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران 67 صحافی ہلاک ہوئے۔ یہ تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں 30 فی صد زیادہ ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رپورٹنگ کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھونے والےصحافیوں میں سے پانچ کا تعلق پاکستان سے ہے۔جس کا ایک اہم سبب ملک میں جاری سیاسی بحران اور ہیجان ہے۔
عالمی گروپ’ انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس ‘ نے صحافیوں کی ہلاکتوں میں اس غیر معمولی اضافے کی وجوہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یوکرین میں جاری روس کی مسلط کردہ جنگ، ہیٹی میں بے چینی اور افراتفری اور میکسیکو میں جرائم پیشہ گروہوں کے بڑھتے ہوئے تشدد نے گزشتہ سال کے مقابلے میں 2022 میں اپنے کام کے دوران صحافیوں کی ہلاکتوں میں اضافہ کیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال تشدد اور اس سے منسلک مختلف واقعات میں دنیا بھر میں 47 صحافی اور میڈیا کے ارکان مارے گئے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
برسلز میں مقیم صحافیوں کی تنظیم نے بتایا ہے کہ ہلاکتوں کے علاوہ صحافیوں کو قید وبند کی صعوبتوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس دقت دنیا بھر میں قید صحافیوں کی تعداد 375 ہے جنہیں اپنی رپورٹنگ کی وجہ سے جیل کی سلاخیں دیکھنی پڑی ہیں۔ چین، میانمار اور ترکی ان ممالک میں شامل ہیں جہاں سب سے زیادہ صحافیوں کو جیل میں رکھا جا رہا ہے۔
گزشتہ سال کی رپورٹ میں زیر حراست صحافیوں کی تعداد 365 تھی ۔
Your browser doesn’t support HTML5
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب کینیا میں ہلاک ہونے والے پاکستانی صحافی ارشد شریف کی والدہ نے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کے نام ایک درخواست میں مطالبہ کیا ہے کہ اُن کے بیٹے کے قتل کے مقدمے میں پاکستانی فوج کے سات افسران کے نام بھی شامل کیے جائیں۔
SEE ALSO: ارشد شریف قتل کیس: سپریم کورٹ کا تحقیقات کے لیے نئی جے آئی ٹی بنانے کا حکموائس آف امریکہ کی اردو سروس کی رپورٹ کے مطابق 7 دسمبر کو ارشد شریف قتل کیس میں سپریم کورٹ کی ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران مقتول کی والدہ رفعت آرا علوی بھی عدالت آئیں اور مطالبہ کیا کہ اُن کے بیٹے کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی رپورٹ اور ارشد شریف کی والدہ کی طرف سے الزامات کے بعد اب تک پاکستانی فوج کی طرف سے کوئی موؐقف سامنے نہیں آیا۔
ارشد شریف کے قتل کے بعد ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم اور ڈی جی آئی ایس پی آر بابر افتخار نے 27 اکتوبر کو ہونے والی پریس کانفرنس میں ارشد شریف کی ہلاکت کے بعد سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید کو بلاجواز قرار دیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
رپورٹ میں الجزیرہ کی صحافی شیریں ابو عاقلہ کے لیے کہا گیا ہے کہ انہیں اس وقت گولی مار دی گئی جب وہ فلسطینی پناہ گزین کیمپ سے رپورٹنگ کر رہی تھیں۔ عرب نیٹ ورک نے اس ہفتے باضابطہ طور پر بین الاقوامی فوجداری عدالت سے اس کی موت کی تحقیقات کرنے کے لیے کہا ہے۔
میڈیا کارکنوں کی ہلاکتوں میں اضافے کی اطلاع کے ساتھ، انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس نے حکومتوں سے صحافیوں اور آزاد صحافت کے تحفظ کے لیے مزید ٹھوس اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
آئی ایف جے کے جنرل سیکرٹری انتھونی بیلینگر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صحافیوں کی ہلاکتوں کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکامی سے ان لوگوں کی حوصلہ افزائی ہو گی جو معلومات کے آزادانہ بہاؤ کوروکنے کی کوشش کرتے ہیں اور لوگوں کی اپنے رہنماؤں کا احتساب کرنے کی صلاحیت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس بات کو یقینی بناناضروری ہے کہ کہ طاقت اور اثر و رسوخ رکھنے والےافراد، ایسے معاشروں کی راہ میں حائل نہ ہوں جو شمولیت کے لحاظ سے جامع اور کھلے پن کے مظہر ہوں۔
آئی ایف جے کے مطابق، اس سال کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں یوکرین میں جنگ کی کوریج کرتے ہوئے زیادہ میڈیا کارکن مارے گئے - جن کی تعداد 12 ہے۔
یوکرین جنگ کا ایندھن بننے والوں میں زیادہ تر صحافی یوکرینی تھے لیکن اس میں دیگر قومیتوں کے لوگ بھی شامل ہیں جیسا کہ امریکی دستاویزی فلم ساز برینٹ ریناؤڈ۔
Your browser doesn’t support HTML5
یوکرین میں صحافیوں کی زیادہ تر ہلاکتیں جنگ شروع ہونے سے قبل ان ہفتوں کے دوران ہوئیں جب افراتفری پھیلی ہوئی تھی اور صحافیوں کو دھمکیاں دی جا جاری تھیں۔
برسلز میں قائم صحافیوں کی یہ بین الاقوامی تنظیم 140 سے زیادہ ممالک میں ٹریڈ یونینز اور ایسوسی ایشنز کے 6 لاکھ میڈیا پروفیشنلز کی نمائندگی کرتی ہے۔
(اس رپورٹ کا کچھ حصہ ایسو سی ایٹڈ پریس کی فراہم کردہ معلومات پر مبنی ہے۔)