رسائی کے لنکس

ارشد شریف قتل کیس: سپریم کورٹ کا تحقیقات کے لیے نئی جے آئی ٹی بنانے کا حکم


ارشد شریف (فائل فوٹو)
ارشد شریف (فائل فوٹو)

سپریم کورٹ نے کینیا میں قتل ہونے والے پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے اسلام آباد پولیس کی قائم کردہ اسپیشل جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) مسترد کردی ہے۔ عدالت نے فوری طور پر نئی جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی میں خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، پولیس، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) کے نمائندے شامل کیے جائیں۔

عدالت نے حکم دیا کہ حکومت نئی جے آئی ٹی کا نوٹی فکیشن بھی جلد جاری کرے۔

اسلام آباد میں بدھ کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے ارشد شریف قتل کی تحقیقات پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران ارشد شریف کی والدہ، سیکریٹری داخلہ و اطلاعات، ڈی جی ایف آئی اے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان اور آئی جی اسلام آباد عدالت میں پیش ہوئے۔

عدالت میں سماعت کے دوران وزارتِ داخلہ نے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ اور تھانہ رمنا میں درج قتل کی ایف آئی آر کی نقل بھی عدالت میں پیش کی۔ اس موقعے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ارشد شریف کی والدہ کا مؤقف بھی سنیں گے۔

دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کینیا کے حکام سے تحقیقاتی ٹیم نے معلومات حاصل کیں، فائرنگ کرنے والے تین اہلکاروں سے ملاقات بھی کرائی گئی، البتہ چوتھے اہلکار کے زخمی ہونے کے باعث ملاقات نہیں کرائی گئی۔

انہوں نے کہا کہ کینیا میں متعلقہ وزیر اور سیکریٹری کابینہ سے ملاقات کی کوشش کر رہے ہیں، اس کے علاوہ کینیا میں ہائی کمیشن متعلقہ حکام سے رابطے میں ہے جب کہ ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ بھی درج کرلیا گیا ہے اور پولیس نے جے آئی ٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ مبینہ طور پر فائرنگ کرنے والے کون ہیں؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فائرنگ کرنے والے کینیا پولیس کے اہلکار ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ فائرنگ کرنے والوں نے پاکستانی ٹیم کو کیا بتایا؟ اس بارے میں رپورٹ میں نہیں لکھا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ رات ایک بجے عدالت کو رپورٹ فراہم کی گئی ہے۔ یہ وحشیانہ قتل ہے، اس قتل کے بنیادی شواہد کینیا میں ہیں۔ اس سلسلے میں کینیا کی حکومت سے رابطہ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ تحقیقات کرنا پروفیشنل لوگوں کا کام ہے، فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کا کام قابل ستائش ہے۔

خیال رہے کہ پولیس کی تشکیل کردہ اسپیشل جے آئی ٹی میں سی پی او ہیڈکوارٹرز، ڈی پی اور صدر، ایس ایچ او تھانہ رمنا، کیس کے تفتیشی افسر اور آئی جی پولیس کی طرف سے نامزد کردہ رکن شامل تھے۔

'حکومت معاملے کو سنجیدگی سے لے'

سماعت کے دوران جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ فائرنگ کرنے والے اہلکاروں کے نام تک رپورٹ میں نہیں لکھے گئے ہیں۔ ساتھ ہی جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ پولیس کے درج کردہ مقدمے میں کس بنیاد پر تین لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے۔

انہوں نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ جو ایف آئی آر درج کی گئی ہے، اس میں شامل نام ارشد شریف کے اہل خانہ کی مرضی کے مطابق لکھے گئے ہیں؟ رپورٹ میں تین کینین پولیس اہلکاروں کا تذکرہ کیا گیا ہے، مگر ان کا نام شامل کیوں نہیں کیا گیا؟

اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا غیرملکی افراد کے خلاف پاکستانی قوانین میں ایف آئی آر درج ہوسکتی ہے۔ اس پر جسٹس مظاہر علی نقوی نے ریمارکس دیے کہ مگر ایف آئی آر میں اس کا تذکرہ لازمی ہونا چاہیے تھا۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ یہ انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے۔ تنبیہ کر رہا ہوں کہ حکومت بھی اسے سنجیدگی سے لے۔ عدالت صرف آپ کو سننے کے لیے نہیں بیٹھی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے اچھی رپورٹ بنائی ہے۔ مگر اس رپورٹ کا مواد ابھی نامکمل ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رپورٹ کے مطابق مقدمے میں نامزد ملزمان کے اہم شخصیات سے رابطے ہیں۔ حکومت کا کام ہے کہ ایسے افسران لگائے جو آزادانہ تحقیقات کرسکیں۔

'ارشد شریف کو دھمکیاں مل رہی تھیں'

دورانِ سماعت ارشد شریف کی والدہ بھی روسٹرم پر آئیں اور کہا کہ وہ شکریہ ادا کرتی ہیں کہ عدالت نے ازخود نوٹس لیا۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم اس کیس پر ایک ماہ سے کام کر رہے تھے، یہ جو رپورٹ آئی ہے، اس پر اب کام کریں گے۔

اس پر ارشد شریف کی والدہ نے کہا کہ انہوں نے ایک رپورٹ بنائی ہے کہ کیسے ارشد شریف کو پہلے دبئی اور پھر وہاں سے نکالا گیا۔ اس رپورٹ میں ان کے نام ہیں جنہوں نے یہ کام کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''میں چاہتی ہوں کہ جو میرے ساتھ ہوا ہے وہ کسی اور ماں کے ساتھ نہ ہو۔

والدہ کی بات پر چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ والدہ کی درخواست ہے اس میں جو نام ہیں ان کا جائزہ لیں۔

ارشد شریف کی والدہ نے کہا کہ میں نے ان تمام افراد کے نام لکھے ہیں، جنہوں نے میرے بیٹے کو مارا ہے۔ ارشد شریف کو دھمکیاں مل رہی تھیں کہ زمین تنگ کردیں گے، زندہ نہیں چھوڑیں گے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ارشد شریف کی والدہ کو کہا کہ ہم اپنی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔ یہ ایک کرمنل معاملہ ہے، اس لیے عدالتی کمیشن کی ضرورت نہیں۔

عدالت نے کہا کہ وقار اور خرم سے تحقیقات کا آغاز کیا جائے اور ارشد شریف کی والدہ کا بیان ریکارڈ کیا جائے۔

'تفتیش سینئر اور آزاد افسران سے کرائی جائے'

علاوہ ازیں عدالت نے ارشد شریف قتل پر پولیس کی قائم کردہ اسپیشل جے آئی ٹی مسترد کردی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چاہتے ہیں کہ آزادانہ ٹیم قتل کی تحقیقات کرے، اس سلسلے میں فوری طور پر نئی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی میں ایسا افسر نہیں چاہتے جو ان کے ماتحت ہو جن کا نام آ رہا ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی آر مختصرہے کیوں کہ تفتیش ہوئی نہ ہی کوئی چشم دید گواہ ہے۔ کل تک جے آئی ٹی کے تمام ناموں سے آگاہ کیا جائے اور تفتیش سینئر اور آزاد افسران سے کرائی جائے۔

عدالت نے کہا کہ جے آئی ٹی ارکان معاملہ فہم اور دوسرے ملک سے شواہد لانے کے ماہر ہوں۔ عدالت نے کہا کہ وزارتِ خارجہ شواہد جمع کرنے میں جے آئی ٹی کی مکمل معاونت کرے۔ اقوامِ متحدہ سمیت عالمی اداروں سے بھی معاونت ضروری ہو تو وزارتِ خارجہ معاونت کرے۔

عدالت نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں ارشد شریف کے اہل خانہ سے تمام معلومات شیئر کی جائیں۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ پاکستانی صحافی ارشد شریف کو 23 اکتوبر کو کینیا میں ہلاک کردیا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر پولیس نےا س معاملے کو شناخت میں غلطی کا معاملہ قرار دیا تھا۔

پاکستان میں بعض حلقے ارشد شریف کے مبینہ قتل کو پاکستان کے مختلف اداروں کے ساتھ منسلک کررہے ہیں تاہم پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے ایک نیوز کانفرنس میں ایسے کسی بھی الزام کی تردید کی تھی اور اس بارے میں ارشد شریف کے قریبی ساتھیوں بشمول اے آروائی چینل کے مالک سلمان اقبال سے تفتیش پر زور دیا تھا۔

XS
SM
MD
LG