صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیمReporters Without Borders نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے انگریزی زبان کے اخبار 'ڈان' کی تقسیم کی راہ میں حکام کی جانب سے ملک کئی حصوں میں مبینہ طور پر رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔
تنظیم کے بیان کے مطابق، ''یہ رکاوٹیں 'ڈان' میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ایک متنازعہ انٹرویو کی اشاعت کے سبب ڈالی جا رہی ہیں''۔
اس بارے میں 'وائس آف امریکہ' کے پروگرام 'جہاں رنگ' کے لئے قمر عباس جعفری کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے ڈان کے چیف ایکزیکٹو، حمید ہارون نے 'پریس کونسل آف پاکستان' کی جانب سے مبینہ طور پر نوٹس اور 'ڈان' اخبار کی تقسیم میں مبینہ رکاوٹ کے بارے میں بتایا کہ انہیں ''ابھی باقاعدہ کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا۔ بلکہ، میڈیا کے ذریعے پتہ چلا ہے اور اخبار کی تقسیم میں رکاوٹیں ڈالنے کے بارے میں بھی اطلاعات مل رہی ہیں''۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات ''قطعی غیر قانونی ہے اور کچھ پتہ نہیں کہ کون کر رہا ہے۔ لیکن، جو بھی کر رہا ہے وہ غیر آئینی اور غیر قانونی کام کر رہا ہے۔
بقول اُن کے، ''سرکاری اداروں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ایسی کارروایئوں کو دوسرے ملکوں میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ یہ پہلے دوسرے اخباروں کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ حالات میں پاکستانی ریاست اس میں کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔''
Your browser doesn’t support HTML5
بعض علاقوں میں 'ڈان ٹی وی' کی نشریات روکے جانے کے دعوے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ نشریات کبھی رک جاتی ہیں کبھی پھر آنے لگتی ہیں، پھر رک جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''بہرحال یہ حکم 'پیمرا' نے نہیں دیا۔ یہ کیبل آپریٹر ہی بتا سکتے ہیں کہ انہیں کون حکم دے رہا ہے''۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ ''چونکہ ان لوگوں کو بہت ہی کم تحفظ حاصل ہے، اسلئے وہ آپکو اس سلسلے میں کچھ نہیں بتایئں گے''۔ لیکن، انہوں نے کہا کہ ''یہ جاننا ضروری ہے۔ یہ معلوم ہونا چاہئے کہ کون کیا کر رہا ہے''۔
'پاکستان حقوق انسانی کمیشن' کے سربراہ، ڈاکٹر مہدی حسن نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''میڈیا پر پابندی لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی؛ بلکہ یہ فیصلہ اخبار کے کسی سینئر آدمی کا ہونا چاہئے کہ کون سی خبر جائے گی اور کونسی نہیں۔ حکومت یا کسی بھی ادارے کی طرف سے یہ بتانا غلط ہے کہ کسی میڈیا پر کیا جانا چاہئے، کیا نہیں۔ یہ غیر مناسب اور آئین میں آزادی صحافت کے لئے دی گئی ضمانتوں کی خلاف ورزی ہے''۔