’عالی صاحب‘ کی کمی پوری ادبی دنیا میں محسوس کی جائےگی: افتخار عارف

  • بہجت جیلانی
افتخار عارف کہتے ہیں کہ جمیل الدین عالی کا شمار ہمارے عہد کی اہم شخصیات میں ہوتا ہے، جن کو کئی حیثیتوں میں یاد رکھا جائیگا۔ وہ اعلیٰ پائے کے ادیب تھے اور ادب اور زبان کے ایک خدمت گزار اور رہنما کی حیثیت سے انہیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا

معروف شاعر اور دانشور، افتخار عارف نے ’وائس آف امریکہ‘ کے پروگرام ’جہاں رنگ‘ میں بہجت جیلانی کے ساتھ ایک انٹرویو میں جمیل الدین عالی کے انتقال پر تفصیلی گفتگو کی۔

عالی صاحب کی موت سے ادب اور فن کی دنیا کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں بات کرتے ہوئے، افتخار عارف کہتے ہیں کہ جمیل الدین عالی کا شمار ہمارے عہد کی اہم شخصیات میں ہوتا ہے، جن کو کئی حیثیتوں میں یاد رکھا جائیگا۔ وہ اعلیٰ پائے کے ادیب تھے اور ادب اور زبان کے ایک خدمت گزار اور رہنما کی حیثیت سے انہیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔

افتخار عارف کہتے ہیں کہ ادیب اور شاعر کی حیثیت سے انہوں نے جوانی ہی میں شہرت حاصل کرلی تھی۔ غالب سے انکی نسبت تھی، کیونکہ ان کے دادا مرزا غالب کے شاگردوں میں سے تھے، اور ان کے خانوادے میں بہت ممتاز شخصیات گزری ہیں۔ خود عالی صاحب نہایت اعلیٰ درجے کے غزل، نظم اور دوہوں کے شاعر تھے، جن کے پہلے شعری مجموعے، ’غزلیں، دوہے، گیت‘، پر عسکری صاحب جیسے نقادوں نے حوصلہ افزا گفتگو کی اور انہیں ناصر کاظمی اور سلیم احمد کے ساتھ نئی آوازوں میں شامل کیا۔

افتخار عارف کہتے ہیں کہ جمیل الدین عالی انتہائی خوش لحن شاعر تھے، جنہوں نے دوہہ پڑھنے کا ایک نیا ڈھنگ نکالا تھا اور ہندی کی روائتی صنف دوہے میں تبدیلی کرکے ایک نیا دوہہ میٹر فراہم کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ دوہہ کی صنف اب بھی ان کے نام سے منسوب کی جاتی ہے۔ ان کے دوہے زبان زد عام تھے:

عالی جی اک دوست ہیں اپنے

جن کا ہے یہ کام

جیون بھر نر دوش رہے

اور جیون بھر بدنام

ان کا دوسرا رخ خدمت کا ہے ۔ انہوں نے قدرت اللہ شہاب کے ساتھ مل کر پاکستان راٹئرز گلڈ کی بنیاد ڈالی اور ایوب خان کے زمانے میں اسے بیحد فعال کر دیا۔اسے ایک مؤثر علمی اور ادبی ادارہ بنا دیا جس میں بڑے لکھنے والے شامل ہوئے۔پھر ان کا ایک اور بڑا کام انجمن ترقی اردو کو انتہائی مؤثر بنانا تھا۔ انہوں نے ہم سمیت، نئے لکھنے والوں کی بے حد حوصلہ افزائی کی۔

افتخار عارف عالی صاحب کے حوالے سے اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عالی جی نے انتہائی یادگار قومی ترانے اور نغمے لکھے، انہیں خود موسیقی کی سمجھ تھی۔ افتخار صاحب کہتے ہیں انہوں نے عالی صاحب کے ساتھ بے شمار مشاعروں میں حصہ لیا ان کی ڈانٹ اور جھڑکیاں کھائیں اور سخت باتیں سنیں۔ وہ جس سے محبت کرتے تھے اپنے دادا کی طرح، جس پہ مرتے تھے اسے مار کے رکھتے تھے۔ ہم پہ بہت سختی کرتے تھے۔ لیکن بہت محبت کرنے والے۔ اپنی بیگم طیبہ بھابھی کے جانے کے بعد وہ بہت اکیلے ہوگئے تھے۔ لیکن، ان کے بچے ان پر جان دیتے تھے۔ اصل میں تو ان کا قافلہ پہلے ہی جا چکا تھا۔ شہاب صاحب، ابن انشا، عباس احمد عباسی، شوکت صدیقی، اشفاق احمد، اور ممتاز مفتی۔ جمیل نشتر صاحب سے بھی ان کا گہرا تعلق تھا۔ وہ لوگوں کے کام آنے والے انسان تھے۔انسانی سطح پر اعلی درجے کے۔ نرم دل آدمی تھے۔ انہوں نے ساری زندگی زبان اور ادب کی خدمت میں گزار دی۔ قلم کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھنا کم لوگوں کہ نصیب ہوتا ہے ۔ عالی جی صاحب علم تھے اور دنیا کی کئی زبانوں کے ادب سے واقف تھے۔ مجھے ان کے ہاں جانے کا اتفاق ہوتا تھا۔ مہمان نواز تھے۔ میں خود بھی ایک مشکل آدمی رہا ہوں۔ لیکن، ان کی کمی نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری اردو دنیا میں محسوس کی جایئگی۔ اپنے مقصد کے ساتھ زندگی گزارنا زرا مشکل کام ہوتا ہے۔

افتخار عارف نے گفتگو کا اختتام عالی صاحب کے اشعار کے ساتھ کیا:

بھٹکے ہوئے عالی سے پوچھو واپس گھر کب آئیگا

کب یہ در و دیوار سجیں گے کب یہ چمن لہرائے گا

اور،

عالی کس کو فرصت ہوگی ایک تمہیں کو رونے کی

جیسے سب یاد آ جاتے ہیں، تم بھی یاد آجاؤگے

اردو دنیا کبھی آپ کو فراموش نہیں کر سکے گی۔ آپ کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔

تفصیل کے لیے وڈیو رپورٹ پر کلک کیجئیے:

Your browser doesn’t support HTML5

جہاں رنگ: جمیل الدین عالی کے بارے میں افتخار عارف کے تاثرات - 25 نومبر 2015