پاکستان میں وفاقی حکومت میں شامل جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کی مخالفت کا اعادہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ قبائلیوں کے مستقبل کا فیصلہ ان کے مرضی اور خواہشات کے مطابق کیا جائے۔
ہفتے کو پشاور میں 'آل فاٹا یوتھ کنونشن' سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ کچھ لوگ قبائلی عوام پر اپنی مرضی اور فیصلے ٹھونسنا چاہتے ہیں جس کی ان کے بقول قطعاً اجازت نہیں دی جاسکتی۔
مولانا فضل الرحمن نے نام لیے بغیر فاٹا کے صوبے میں انضمام کی حامی قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنمائوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے قوم پرستی کے نعرے پر پختونوں کو منتشر اور تقسیم کردیا ہے۔
اس کے برعکس مولانا فضل الرحمن نے دعویٰ کیا کہ ان کی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) نے پختونوں کو متحد اور حجرے اور مسجد کو یکجا کیا ہے اور پختونوں کو ان کے بقول اپنے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے بیدار بھی کیا ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پچھلے کئی برسوں کے دوران قبائل نہ صرف نقل مکانی کرکے اپنے آبائی علاقوں سے بے دخل ہوئے ہیں بلکہ وہ تتر بتر بھی ہوگئے ہیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ قبائل کو پہلے ان کے علاقوں میں آباد کیا جائے اور پھر ان کو موقع فراہم کیا جائے کہ وہ اپنی مرضی اور منشا کے مطابق اپنے مستقبل کے بارے میں خود فیصلہ کریں۔
اپنے خطاب میں مولانا فضل الرحمن نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ جمعیت علمائے اسلام نے قبائلی علاقوں سے بھارت کی حمایت کرنے والوں کو نکلوایا جس کی سزا اب ان کے بقول انہیں اور ان کی جماعت کو دی جارہی ہے۔
تاہم انہوں نے اپنے اس دعوے کی وضاحت نہیں کی۔
پشاور کے شاہ طہماس خان فٹبال اسٹیڈیم میں منعقد کیے گئے اس کنونشن میں مختلف قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے رہنمائوں اور نوجوانوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
کنونشن کے دیگر مقررین نے بھی قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں مجوزہ انضمام کی شدید مخالفت کی۔
مولانا فضل الرحمن کے خطاب پر تبصرہ کرتے ہوئے صوبے کی حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما اور وزیراعلٰی خیبر پختونخوا کے مشیر شوکت علی یوسف زئی نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی سیاست ان کے مفادات کی تابع ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے شوکت یوسف زئی نے الزام عائد کیا کہ مولانا فضل الرحمن اپنی پارٹی کے بجائے کسی اور کے فراہم کردہ ایجنڈے کے تحت قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کی مخالفت کر رہے ہیں۔
تحریکِ انصاف کے رہنما نے دعویٰ کیا کہ نہ صرف قبائلی علاقوں سے منتخب ارکانِ پارلیمان بلکہ قبائلی عوام کی اکثریت فاٹا کے صوبے میں انضمام کے حق میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے سے نہ صرف قبائلی لوگوں کو بنیادی انسانی اور آئینی حقوق میسر آئیں گے بلکہ اس سے ملک بھر میں بالعموم اور اس خطے میں بالخصوص دہشت گردی اور انتہاپسندی کا خاتمہ ہوگا۔
مختلف قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ارکانِ پارلیمان، قبائلی رہنمائوں اور ملک کی اہم سیاسی جماعتوں کے مطالبے پر سابق وزیرِاعظم میاں محمد نواز شریف نے قبائلی علاقوں کے مستقبل کے تعین اور ان کے انتظام میں اصلاحات متعارف کرانے کے لیے ایک پانچ رکنی کمیٹی قائم کی تھی۔
اس سے قبل پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر 16 دسمبر 2014ء کے بعد ہونے والی ایک کل جماعتی کانفرنس میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مرتب کیے جانے والے لائحۂ عمل میں بھی قبائلی علاقوں میں اصلاحات لانے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔
سابق وزیراعظم کی تشکیل کردہ کمیٹی نے متفقہ طور پر وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی تجویز پیش کی تھی تاہم مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پختون قوم پرست سیاسی رہنما محمودخان اچکزئی کی جماعت پختونخوا ملی عوامی پارٹی اس انضمام کی مخالفت کر رہی ہیں۔
حکومت کی اتحادی ان دونوں جماعتوں کی مخالفت کے باعث اس بارے میں قانون سازی التوا کا شکار ہے جس پر دیگر جماعتیں خصوصاً پاکستان تحریکِ انصاف اور عوامی نیشنل پارٹی خاصی برہم ہیں۔