ایک برطانوی اپیل کورٹ نے وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو فوجداری مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے امریکہ کے حوالے کیے جانے کے راہ کھول دی ہے۔
عدالت نے ایک نچلی کورٹ کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا جس میں کہا گیا تھا کہ اسانج کی دماغی صحت امریکی فوجداری نظام انصاف کا مقابلہ نہیں کر سکتی
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اپیل عدالت کے فیصلے کے خلاف مزید عدالتی چارہ جوئی متوقع ہے۔
اس سال کے اوائل میں ایک برطانوی عدالت نے امریکہ کی اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ اسانج کو وکی لیکس میں ایک عشرہ قبل خفیہ امریکی عسکری دستاویز چھاپنے پر جاسوسی کا مقدمہ چلانے کے لیے امریکہ کے حوالے کیا جائے۔
Your browser doesn’t support HTML5
جج وینیسا بارائستر نے اسانج کو امریکہ کے حوالے کرنے کی درخواست یہ کہہ کر مسترد کر دی تھی کہ امریکہ میں جیل کے سخت حالات کے سبب امکان غالب ہے کہ اسانج کی زندگی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
امریکہ نے اس بات کو اپیل کورٹ میں چیلنج کیا تھا کہ اسانج اتنے غیر محفوظ ہیں کہ وہ امریکہ کے عدالتی نظام کا سامنا کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔
اپیل کی درخواست میں وکیل جیمز لوئیس نے جرح کی کہ اسانج کی کوئی ایسی تاریخ نہیں جو یہ ظاہر کرے کہ انہیں کوئی ذہنی مرض لاحق ہے۔ اور یہ کہ وہ اس معیار پر بھی پورا نہیں اترتے کہ وہ اپنی جان لینے جیسی کسی بھی سوچ پر قابو نہیں پا سکتے۔
امریکی حکام نے برطانوی ججوں کو بتایا ہے کہ اگر اسانج کو امریکہ کے حوالے کیا جاتا ہے تو وہ عدالت کی طرف سے دی جانے والی قید کی سزا اپنے آبائی ملک آسٹریلیا میں پوری کر سکتے ہیں۔
امریکی وکلائے استغاثہ نے اسانج پر جاسوسی کے 17 الزامات لگا کر ان پر فرد جرم عائد کی ہے کہ انہوں نے وکی لیکس میں ہزاروں لیک ہونے والی فوجی اور سفارتی دستاویزات کی اشاعت کے لیے کمپیوٹر کا غلط استعمال کیا۔
ان الزامات کے نتیجے میں دی جانے والی سزا زیادہ سے زیادہ 175 سال قید ہے، جب کہ لیوس نے کہا کہ "اس جرم کے لیے اب تک کی دی جانے والی طویل ترین سزا 63 ماہ ہے''۔
پچاس سالہ اسانج کو لندن کی انتہائی سیکیورٹی نگہداشت کی بیلمر جیل میں رکھا گیا ہے۔