وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کے وکیل نے دعوی کیا ہے کہ اسانج برطانیہ سے اپنی بے دخلی کے مقدمے کی کارروائی کے دوران یہ دعوی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے انہیں اس شرط پر معاف کرنے کی پیشکش کی تھی، اگر وہ یہ کہنے پر تیار ہو جائیں کہ دو ہزار سولہ کے صدارتی انتخابات میں ڈیمو کریٹک پارٹی کی نیشنل کمیٹی کی ای میلز لیک کرنے میں روس کا کردار نہیں تھا ۔
اسانج امریکہ کی جاسوسی کے الزام میں برطانوی جیل میں قید ہیں اور اپنی امریکہ حوالگی کے خلاف مقدمے کا دفاع کر رہے ہیں۔ ان کے مقدمے کی باقاعدہ سماعت کا آغاز آئیندہ ہفتے ہونے والا ہے ۔
بدھ کو لندن میں ہونے والی ایک ابتدائی سماعت میں اسانج کے وکیل ایڈورڈ فٹز جیرالڈ نے بتایا کہ امریکہ کے ایک سابق ریپبلکن رکن کانگریس ڈانا رورا بارکر نے لندن میں موجود ایکوا ڈور کے سفارتخانے میں اسانج سے اگست دو ہزار سترہ میں ملاقات کی تھی۔
اسانج کے وکیل نے اپنے موکل کی ایک اور دفاعی وکیل جینیفر رابنسن کا بیان پڑھ کر سنایا ، جس کے مطابق امریکی رکن کانگریس ‘رورا بارکرنے ،جولین اسانج سے صدر کی ہدایت پر ملاقات کی تھی اور کہا تھا کہ وہ مسٹر اسانج کے لئے معافی یا باہر نکلنے کے کسی راستے کی پیش کش کر سکتے ہیں، اگر اسانج یہ کہہ دیں کہ روس کا ڈیمو کریٹک نیشنل کمیٹی کی ای میل ہیکنگ کے معاملے سے کوئی تعلق نہیں تھا’۔
وائٹ ہاوس کی پریس سیکرٹری اسٹیفنی گریشم نے اسانج کے وکیل کے اس بیان کو مکمل طور پر بے بنیاد قرار دیا ہے ۔ اور کہا ہے کہ امریکی 'صدر ڈانا رورا بارکر کو بالکل نہیں جانتے، سوائے اس کے کہ وہ ایک سابق ریپبلکن رکن کانگریس ہیں'۔ ترجمان کے بقول، ٹرمپ نے 'بارکر سے اس یا کسی اور موضوع پر کوئی بات نہیں کی۔ یہ ایک من گھڑت کہانی اور مکمل جھوٹ ہے' ۔
دو ہزار سولہ میں ڈیمو کریٹک پارٹی اور ہلری کلنٹن کی صدارتی مہم کو زبردست نقصان پہنچانے والی ان ای میلز کو شائع ہونے سے پہلے وکی لیکس نے ہیک کر لیا تھا ۔
مقدمے کی ابتدائی سماعت کرنے والی جج نے اس نئی شہادت کو اسانج کی امریکہ حوالگی کے کیس کی کارروائی میں پیش کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ اسانج نے مقدمے کی کارروائی میں ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔
اڑتالیس سالہ کمپیوٹر ہیکر جولین اسانج کو، جن کا تعلق آسٹریلیا سے ہے، لاکھوں انتہائی اہم سرکاری دستاویز ہیک کرنے کے الزام میں مقدمے کا سامنا ہے، اور اگر ان پر الزامات ثابت ہو گئے تو انہیں 175 سال قید کی سزا کا سامنا ہوگا۔
جولین اسانج کا دعوی ہے کہ وہ امریکی آئین کی پہلی ترمیم کی روشنی میں ایک صحافی کے طور پر اپنا کام کر رہے تھے۔