پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر ملتان کی مقامی عدالت نے توہین مذہب کے الزام میں گرفتار بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے سابق لیکچرار جنید حفیظ کو توہین مذہب کیس میں سزائے موت سنا دی ہے۔
ہفتے کو ملتان کی سینٹرل جیل میں سنائے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ملزم پر توہین مذہب کے الزامات ثابت ہو گئے ہیں۔ لہذٰا توہین مذہب کی دفعہ 295 سی کے تحت انہیں سزائے موت دی جاتی ہے۔
جنید حفیظ کو توہین مذہب کی دفعہ 295 بی کے تحت عمر قید اور دفعہ 295 اے کے تحت 10 سال قید اور پانچ لاکھ جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سزائیں بیک وقت شروع ہوں گی جبکہ عمر قید اور دیگر سزائیں پوری ہونے پر انہیں پھانسی دی جائے۔
فیصلہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کاشف قیوم نے سنایا۔ سیکیورٹی کے پیش نظر اور مجرم کے ایک وکیل راشد رحمان کے قتل کے بعد مقدمے کی سماعت 2014 سے سینٹرل جیل ملتان میں ہو رہی تھی۔
تین دن قبل اس کیس کی آخری سماعت رات گئے تک جاری رہی تھی اور پھر اس کا فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا۔ ملزم کے وکلا اور پراسیکیوشن کی جانب سے چوہدری ضیاء الرحمان نے اپنے دلائل مکمل کئے تھے۔
اس کیس کے سرکاری وکیل چوہدری ضیاء الرحمان کے مطابق عدالت نے ٹھوس شواہد کی بنیاد پر یہ فیصلہ سنایا ہے۔
ان کے بقول "پراسیکیوشن یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہی کہ جنید حفیظ نے سنگین جرم کا ارتکاب کیا۔ شعبہ انگریزی میں تعلیم حاصل کرنے والے تین طالب علم اور یونیورسٹی کے ایک پی ایچ ڈی پروفیسر نے بھی گواہی دی کہ کس طرح ملزم نے توہین کی۔"
عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ مجرم کو سنائی جانے والی تمام سزائیں الگ الگ شمار ہوں گی۔ اور مجرم کو زیرِ دفعہ 382 بی کے تحت مراعات بھی نہیں دی جائیں گی۔ کیوں کہ عدالت سمجھتی ہے کہ مجرم سنگین جرم کا مرتکب ہوا اور اسلام میں بھی ان رعایتوں کی کوئی اجازت نہیں۔"
فیصلے کے بعد ملتان کی ڈسٹرکٹ بار میں وکلا نے ایک دوسرے کو ہار پہنائے اور مٹھائی بھی تقسیم کی۔ کچھ وکلا پراسیکیوشن برانچ بھی گئے اور پراسیکیوٹرز کو بھی مٹھائی کھلائی۔
پراسیکیوشن کی معاونت کرنے والے وکلا میں شامل ملتان بار کے سابق صدر اطہر حسن بخاری نے کہا کہ پراسیکیوشن نے شواہد کی بنا پر کیس لڑا اور کامیاب رہے۔
اطہر بخاری نے کہا کہ اس کیس میں راشد رحمان سمیت کسی وکیل کو دھمکی نہیں دی گئی کہ وہ ملزم کا کیس نہ لڑیں۔
اطہر بخاری نے کہا کہ "راشد رحمان کو کسی نے دھمکی نہیں دی تھی بلکہ میں تو ان کے قتل کے بعد ان کے پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال موجود رہا۔ اور اگلے روز جب کوئی ان کا جنازہ نہیں پڑھا رہا تھا تو میں نے ہی ان کا جنازہ پڑھایا تھا۔"
اطہر بخاری کا مزید کہنا تھا کہ "اب ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ کسی تعلیمی ادارے میں کوئی استاد اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث تو نہیں۔ ہم اب ان پر نظر رکھیں گے۔"
فیصلے پر جنید حفیظ کے والد حفیظ النصیر کا کہنا ہے فیصلے پر انہیں شدید مایوسی ہوئی۔ البتہ، وہ اس کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔
انسانی حقوق کی غیر سرکاری موقر تنظیم، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے ملتان کی عدالت کی طرف سے پروفیسر جنید حفیظ کے خلاف سنائے جانے والے فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
ایچ آر سی پی کی طرف سے ہفتے کو جاری ہونے والے بیان کے مطابق، تنظیم کے خیال میں توہین مذہب کے قوانین کا بے جا استعمال کیا جاتا رہا ہے، جبکہ ماتحت عدلیہ میں ایسے مقدمات کی سماعت میں تاخیر اور دباؤ کی وجہ سے یہ صورتحال خراب ہو جاتی ہے۔ ایچ آر سی پی کے مطابق، یہ دباؤ اس وقت بھی عیاں ہو جاتا ہے جب ایسے مقدمات کے فیصلے ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں کالعدم قرار دے دیے جاتے ہیں۔ ایچ آر سی پی کے مطابق، جنید حفیط کے ایک وکیل کو 2014 میں قتل کر دیا گیا، جب کہ جنید حفیظ کے مقدمے کی آٹھ جج سماعت کر چکے ہیں جس کی وجہ سے مقدمے کی شفاف سماعت نا ممکن ہوگئی۔
تاہم، ایچ آر سی پی نے اعلیٰ عدلیہ پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا کہ اییل پر جنید حفیظ کے خلاف فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا جائے گا، جیسا کہ مسیحی خاتون آسیہ بی بی کے معاملے میں پہلے ہو چکا ہے۔ آسیہ بی بی کو ایسے ہی الزم کے تحت آٹھ سال جیل میں قید رہنے کے بعد پاکستان کی سپریم کورٹ نے اسے بری کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
یاد رہے کہ آسیہ بی بی کو توہین مذہب کے الزام میں 2010ء میں سزائے موت سنائی گئی تھی، جسے بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔ تاہم، آسیہ بی بی کی اپیل سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے 31 اکتوبر 2018ء کو اُن کی رہائی کا حکم دیا تھا۔
جنید حفیظ پر الزام کیا تھا؟
مارچ 2013 میں جنيد حفيظ کو توہينِ مذہب کے الزام ميں لاہور سے گرفتار کيا گيا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر توہین آمیز پوسٹ کی تھی۔
جنید حفیظ پر ملتان میں توہینِ مذہب کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
جنيد حفيظ کے وکيل اسد جمال کے مطابق، ان کے موکل پر توہين مذہب کا الزام لگانا ان کے خلاف سازش تھی۔ ادھر، ایف آئی آر میں جنید حفیظ پر یہ الزام ہے کہ کسی اور کی جانب سے لگائی گئی پوسٹ کو انہوں نے اپنی پروفائل سے حذف نہیں کیا تھا۔
SEE ALSO: جنید حفیظ جیل میں انصاف کا منتظرجنید حفیظ کا کیس لڑنے پر ان کے وکلا کو ہراساں کیے جانے کی شکایات بھی منظرِ عام پر آتی رہی ہیں۔
جنید حفیظ کے ایک وکیل راشد رحمان کو مئی 2014 میں نامعلوم افراد نے ان کے دفتر میں گھس کر قتل کر دیا تھا۔
جنید حفیظ کے والد حفیظ النصیر نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کے نام خط میں جنید کی رہائی کی اپیل کی تھی۔
امریکی حکام بھی جنید حفیظ کی رہائی کے لیے پاکستان پر زور دیتے رہے ہیں۔
جنید حفیظ کے وکیل اسد جمال کا کہنا تھا کہ جنيد ايک ذہين طالب علم تھے۔ طلبہ ميں مشہور تھے۔ جامعہ کی تقریبات، مباحثوں اور دوسرے ایونٹس ميں شرکت کرتے تھے اور ان کی ميزبانی بھی کرتے تھے۔
مارچ 2013 میں جنيد حفيظ کو توہين مذہب کے الزام ميں لاہور سے گرفتار کيا گيا۔ ان کا ليپ ٹاپ اور دوسری اشيا ضبط کر لي گئیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسد جمال کا موقف رہا ہے کہ جنيد حفيظ پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے کسی اور کی جانب سے لگائی گئی توہین آمیز پوسٹ کو ڈیلیٹ نہیں کیا تھا۔ اسد جمال کا کہنا تھا کہ اس کيس ميں جنيد حفيظ کے خلاف 26 گواہان کی فہرست بنائی گئی ليکن استغاثہ نے ان ميں سے 15 ہی کو چُنا۔
خیال رہے کہ پاکستان میں توہین مذہب کیس میں کرسچن خاتون آسیہ بی بی کو بھی 2010 میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ لاہور ہائی کورٹ نے سزائے موت کو برقرار رکھا تھا۔
جس کے بعد یہ معاملہ عالمی سطح پر شہ سرخیوں میں شامل رہا تھا۔ آسیہ بی بی کا ساتھ دینے اور پاکستان میں توہین مذہب سے متعلق قوانین کے بڑے ناقد سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو اس پاداش میں جنوری 2011 میں فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔
سلمان تاثیر کو ان کے محافظ ممتاز قادری نے گولیوں کا نشانہ بنایا تھا۔ البتہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے عدم شواہد کی بنا پر آسیہ بی بی کو بری کر دیا تھا۔
آسیہ بی بی بعدازاں کینیڈا منتقل ہو گئی تھیں۔