ٹیکنالوجی کے دور میں ریاستیں اظہارِ رائے کو کنٹرول نہیں کر سکتیں: جسٹس اطہر من اللہ

سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ ٹیکنالوجی کے دور میں ریاستیں اظہارِ رائے کو کنٹرول نہیں کرسکتیں۔ اگر 75 سال میں اظہارِ رائے کی قدر کی ہوتی تو پاکستان نہ ٹوٹتا۔

ہفتے کو سپریم کورٹ میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ بطور جج ہم اپنی کوئی چیز نہیں چھپا سکتے۔ عدلیہ میں دو قسم کی تنقید ہوتی ہے، ایک تنقید دانستہ طور پر فیصلے پر ہوتی ہے اور ایک تنقید ریلیف ملنے پر ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ججوں کو آزاد ہونا چاہیے۔ جج کو کبھی کسی تنقید سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ اگر تنقید کرنے والا بھی اسی عدالت پر اعتماد کرے تو یہ عدلیہ کا امتحان ہے۔ تنقید ہر کوئی کرے لیکن اس کے بعد اعتماد بھی کرے۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ جج اگر تنقید کا اثر لیتا ہے تو وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اظہارِ رائے کی قدر ہوتی تو ہم 1971 میں پاکستان ٹوٹتے ہوئے نہ دیکھتے۔ مغربی پاکستان کے لوگوں کو بالکل مختلف منظر دکھایا گیا۔

SEE ALSO: ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ؛ ’برطانوی دور کا بغاوت کا قانون سیاسی مخالفین پر استعمال ہوا‘

سیمینار سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ ہم بطور سوسائٹی اپنی مرضی کے فیصلے اور گفتگو بھی چاہتے ہیں۔ اظہارِ رائے بہت بڑی چیز ہے، اسے کبھی دبانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اگر کوئی غلط کہتا ہے تو خود بے نقاب ہو جاتا ہے۔

ان کے بقول ٹیکنالوجی کے دور میں ریاستیں اظہارِ رائے کو کنٹرول نہیں کر سکتیں۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ عدلیہ کو نہ گھبرانا چاہیے نہ خائف ہونا چاہیے۔ ججز بہت کچھ کہہ سکتے ہیں لیکن حل صرف ایک ہی ہے جو آئین میں لکھا ہوا ہے۔ اظہارِ رائے کا احترام کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کی تاریخ دیکھ لیں۔ ہم ایسے ماحول میں رہتے ہیں کہ ایک سیاسی لیڈر اگر کمزور ہوجائے تو عدالت کی جانب سے سزا سے پہلے ریاستی طور پر یا اس کے مخالف طبقہ اسے سزا دے چکا ہوتا ہے۔

ان کے بقول سب کو سچ کا پتا ہوتا ہے۔ 75 سال سے سچ سب کو پتا تھا لیکن سچ کو دبانے کی کوشش کی گئی اور ہم یہاں تک پہنچ گئے۔

SEE ALSO: جب نوے دن میں ہونے والے انتخابات سات سال تک ملتوی ہو گئے

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کبھی بھی عدلیہ یا جج کو یہ کوشش نہیں کرنی چاہیے کہ وہ اظہارِ رائے کو یا کورٹ رپورٹر کو منع کرے کہ اس نے کیا کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر 75 سال ہم نے اظہارِ رائے کی قدر کی ہوتی، اسے صحیح معنوں میں پنپنے دیا ہوتا تو نہ پاکستان دولخت ہوتا اور نہ ہمارے لیڈر پھانسی چڑھتے۔ یہ صرف عدلیہ کا کام نہیں ہے بلکہ ہر شہری کا کام ہے۔ اظہارِ رائے ہوگا تو ہم ایک عظیم قوم بن سکتے ہیں۔