جسٹس بابر ستار کو آڈیو لیکس کیس سے الگ کرنے کی درخواست مسترد: اداروں کو پانچ، پانچ لاکھ جرمانہ

  • وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) اور دیگر اداروں نے جسٹس بابر ستار کو آڈیو لیکس کیس سے الگ کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔
  • آئی بی، ایف آئی اے، پی ٹی اے اہم ادارے ہیں ان کی درخواستیں سن کر فیصلہ کروں گا: جسٹس بابر ستار
  • انٹیلی جینس بیورو کی متفرق درخواست کس کی منظوری سے دائر ہوئی ہیں: جسٹس بابر ستار کا استفسار
  • ایسا لگتا ہے کہ عدلیہ نے اسٹینڈ لینے کا فیصلہ کر لیا ہے: بیرسٹر اعتزاز احسن

اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس بابر ستار کو آڈیو لیکس کیس سے الگ کرنے سے متعلق اداروں کی درخواستیں پانچ، پانچ لاکھ روپے جرمانے کے ساتھ خارج کر دیں۔

پیر کو دورانِ سماعت جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ اگر ایگزیکٹو ججز کو بلیک میل کرے تو کیا ججز کا مفادات کا ٹکراؤ ہو جائے گا؟ عدالت نے عندیہ دیا کہ ان تمام اداروں کی اتھارٹیز کے خلاف توہینِ عدالت کی کاروائی بھی ہو سکتی ہے۔

آئی بی کے اعتراض پر انٹیلی جینس بیورو کے جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا گیا۔ عدالت نے چیف جسٹس پاکستان کے خلاف مہم پر بننے والی جے آئی ٹی کے ٹی او آرز طلب کرتے ہوئے کہا کہ جو جے آئی ٹی چیف جسٹس پاکستان کے خلاف مہم پر بنی تھی وہ آڈیو لیکس معاملے کو کیوں نہیں دیکھ سکتی؟

چار اداروں کی طرف سے دائر درخواستوں میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ جسٹس محسن اختر کیانی 2021 میں اسی نوعیت کے ایک دوسرے کیس کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اس لیے اب اختلافی فیصلے سے بچنے کے لیے اور انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے بشریٰ بی بی اور نجم الثاقب کی درخواستوں پر سماعت کرنے والے جسٹس بابر ستار اس مقدمے سے الگ ہو جائیں۔

جسٹس بابر ستار نے آڈیو لیکس کے معاملے پر بشریٰ بی بی کی ایف آئی اے اور سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کے بیٹے نجم الثاقب کی پارلیمانی کمیٹی میں طلبی کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔

گزشتہ سال 29 اپریل 2023 کو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی پنجاب اسمبلی کے حلقہ 137 سے پاکستان تحریک انصاف کا ٹکٹ لینے والے ابوذر سے گفتگو کی مبینہ آڈیو منظر عام پر آگئی تھی جس میں انہیں پنجاب اسمبلی کے ٹکٹ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سنا گیا۔

اس حوالے سے تحقیقات کے لیے قومی اسمبلی میں تحریک کثرتِ رائے سے منظور کی گئی تھی جس میں کہا گیا کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے نجم ثاقب کی آڈیو کے معاملے کی فرانزک تحقیقات کرائی جائیں۔ نجم ثاقب کی آڈیو لیک کی تحقیقات کے لیے خصوصی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے۔

اس وقت کے اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے تحقیقات کے لیے اسلم بھوتانی کی سربراہی میں خصوصی کمیٹی قائم کر دی تھی۔

تیس مئی کو نجم ثاقب نے اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے بنائی گئی اسپیشل کمیٹی کی تشکیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردی تھی۔

پیر کی سماعت کے دوران کیا ہوا؟

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ وفاتی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے)، انٹیلی جینس بیورو اور پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے متفرق درخواستیں دائر کی ہیں۔

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آئی بی، ایف آئی اے، پی ٹی اے اہم ادارے ہیں ان کی درخواستیں سن کر فیصلہ کروں گا جن میں مجھ پر اعتراض کیا گیا ہے کس نے ان کو درخواستیں دائر کرنے کی اتھارٹی دی ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے جواب دیا کہ ایف آئی اے نے کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کی استدعا کی ہے۔ اعتراض ہے کہ جسٹس بابر ستار سمیت چھ ججز نے انٹیلی جینس ایجنسیز کی عدلیہ میں مداخلت کا خط لکھا تھا۔

جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ آئی ایس آئی کے معاملے سے ایف آئی اے کا کیا تعلق ہے؟ کیا وہ آئی ایس آئی کی پراکسی ہے؟ کیا خط خفیہ اداروں کے حوالے سے ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے جواب دیا کہ نہیں ان کا تعلق تو نہیں ہے۔ ایک پٹیشن میں ایجنسیز کے کردار کے حوالے سے بات کی گئی ہے اس لیے میں کہہ رہا ہوں۔

عدالت نے ایف آئی اے کی متفرق درخواست جرمانے کے ساتھ خارج کردی اور ڈی جی ایف آئی اے کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کا عندیہ بھی دیا۔

جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ انٹیلی جینس بیورو کی متفرق درخواست کس کی منظوری سے دائر ہوئی ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جینس بیورو طارق محمود نے منظوری دی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) سے جواب طلب کر لیا کہ کس کی ہدایت پر متفرق درخواست دائر ہوئی اور جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل آئی بی کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔

جسٹس بابر ستار نے پیمرا وکیل سے استفسار کیا کہ آپ نے ایک درخواست دائر کی ہے میں یہ کیس نا سنوں؟ یہ اعتراض کی گراؤنڈ کیسے ہو سکتی ہے؟ آپ اسی فیصلے کی بنا پر اپنے دلائل دے سکتے ہیں۔

سابق ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بیرسٹر جہانگیر خان جدون نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ اس کیس میں وکیل نہیں ہوں لیکن کچھ کہنا چاہتا ہوں۔

اُن کا کہنا تھا کہ "میری استدعا ہے کہ فضول، غیرسنجیدہ درخواستیں دائر کرنے پر ذمہ داران کی جیبوں سے جرمانہ لیا جائے۔ یہ رقم قومی خزانے سے ادا نہیں کی جانی چاہیے۔

جسٹس بابر ستار نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کر کے کہا ایسی درخواستیں دائر کرنے کا مقصد عدالتی کارروائی کو شرمندہ کرنا ہے، ہم اور آپ ایک ہی دنیا میں رہتے ہیں بالکل سمجھ رہے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیمرا اور پی ٹی اے سمیت تمام درخواستیں پانچ, پانچ لاکھ روپے جرمانہ لگا کر خارج کردیں۔

'عدالتی حکم نے میرا قد 20 فٹ اُونچا کر دیا ہے'

اس موقع پر عدالت میں موجود وکلا نے روسٹرم پر آ کر جسٹس بابر ستار کی بہادری کو سراہا۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے آج کے حکم نامے نے میرا قد 20 فٹ اونچا کر دیا ہے۔

بیرسٹر اعتزاز احسن نے بطور عدالتی معاون دلائل میں کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ عدلیہ نے اسٹینڈ لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مجھے خوشی ہے اب ججز کہہ رہے ہیں کہ 'اب بہت ہو چکا۔"

انہوں نے کہا کہ عدلیہ کو الیکشن 90 دن کے اندر نہ ہونے پر اسٹینڈ لینا چاہیے تھا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم کھڑے ہو جائیں اور اپنا ہاؤس اِن آرڈر کریں۔

اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ "میں پارلیمان اور آئین کی بالادستی پر یقین رکھتا ہوں۔"

عدالت نے اعتزاز احسن کو سپریم کورٹ میں جاری فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کےخلاف کیس کا حوالہ دینے سے روک دیا۔

اعتزاز احسن نے کہا نواز شریف، مریم نواز، آصف زرداری کی آڈیوز سامنے آتی رہی ہیں۔ یہ پبلک انٹرسٹ کامعاملہ ہے۔ ایف آئی اے کو خود سے ایکشن لینا چاہیے۔