پاکستان کی سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی درخواست پر سماعت کرنے والا سات رکنی لارجر بینچ دو ججز کی سماعت سے معذرت کے بعد تحلیل ہو گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے دو سینئر ججوں جسٹس سردار طارق اور جسٹس اعجاز الاحسن نے سماعت سے معذرت کر لی ہے، جس کے بعد بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطاء بندیال نے نئے بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ چیف جسٹس آف پاکستان کو بھجوا دیا ہے۔
دوران سماعت عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ بینچ میں شامل دو جج محسوس کر رہے ہیں کہ اُنہیں اس بینچ سے الگ ہو جانا چاہیے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی لارجر بینچ نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل کا آغاز کیا اور بینچ پر اعتراض اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ اس بینچ میں کچھ ججوں کو مقدمہ سننے سے انکار کر دینا چاہیے۔
اُس موقع پر انہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبران کے علاوہ باقی ججز پر مشتمل فل کورٹ بنانے کی استدعا کی۔
دوران سماعت جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ کون سے عوامل سے جج کی جانبداری ثابت ہوتی ہے؟ "عدالت کا ہر جج اپنی ذمہ داری آئین اور قانون کے مطابق ادا کرتا ہے۔ کسی جج کی کسی مقدمے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ جج کی جانبداری کا کہہ کر آپ معاملے کو غلط رنگ دے رہے ہیں۔"
وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ جن ججوں نے چیف جسٹس بننا ہے ان کی دلچسپی ہے۔ ان کی تنخواہ بڑھ جائے گی۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ نے عدلیہ کو مضبوط کرنا ہے کسی جج پر ذاتی اعتراض نہ کریں۔ اعتراض سے لوگوں کا عدلیہ پر اعتماد بھی مجروح ہوگا یہ محض افواہوں کا دروازہ کھولنے کی بات ہے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل کا اعتراض مسترد کر دیا اور ریمارکس دیے کہ عدالتی فیصلے موجود ہیں کسی جج کو مقدمہ چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، جس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کر دیا۔
کیس کی سماعت آدھے گھنٹے کے وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو بینچ ٹوٹ گیا۔ جسٹس سردار طارق اور جسٹس اعجاز الاحسن نے سماعت سے معذرت کرلی۔ جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ اعتراضات کے باعث بینچ سے نہیں اٹھ رہا بلکہ صبح سے ہی سماعت سے انکار ذہن میں تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ہمارا حلف بغیر کسی خوف و خطر انصاف کرنے کا پابند بناتا ہے۔ اپنے حلف کو قائم رکھنے کے لیے میرے ذہن میں کوئی شبہ نہیں۔ انصاف اور شفافیت اس ادارے کا تقاضا ہے۔ جو اعتراضات اٹھائے گئے وہ بے بنیاد ہیں۔ اعتراضات کے بعد سماعت کے لیے بیٹھنا مناسب نہیں سمجھتا۔
جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ کیس میں مفاد نہ ہونے کے باوجود الگ ہو رہا ہوں ہم نے تمام حالات میں حلف کا پاس رکھنا ہوتا ہے۔ ساتھی جج کی طرف سے تحفظات افسوس ناک ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ جج کا کوئی مفاد نہیں ہوتا۔ مجھے ججز کا بڑا خیال ہے کسی سائل کو جج کے انتخاب کا اختیار نہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے وکیل منیر اے ملک نے کہا الگ ہونے والے ارکان کا بڑا احترام ہے۔ یہ بات اپنے موکل کی طرف سے کہہ رہا ہوں۔
نئے بینچ کی تشکیل کے لیے بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کیس چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کو بھجوا دیا ہے۔
فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس ہے کیا؟
سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں اثاثے چھپانے کا ریفرنس حکومت کی طرف سے دائر کیا گیا تھا جس کے خلاف انہوں نے آئینی پٹیشن دائر کی ہے۔
اس سے قبل فائز عیسیٰ کے خلاف دائر دوسرا ریفرنس جو صدر عارف علوی کو خط لکھنے سے متعلق تھا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے مسترد کر دیا گیا تھا۔