جموں کے قبائلی گجر خاندان سے تعلق رکھنے والی آٹھ سالہ بچی آصفہ، اس سال جنوری میں ہر روز کی طرح اپنے گھوڑوں کو گاؤں سے دور چراگاہوں کی طرف لے کر گئی۔ اور گھر نہیں لوٹی۔
والدین پڑوسیوں کے ساتھ رات بھر وہ ٹارچوں اور لالٹینوں کی روشنی میں جنگل میں دور دور تک ڈھونڈتے رہے۔ لیکن، بچی کا سراغ نہیں ملا۔ ایک ہفتے بعد اس کی لاش جنگل سے ملی۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ اور پولیس کی تحقیقات کے مطابق، آصفہ کو اغوا کرنے کے بعد ایک مقامی مندر میں قید رکھا گیا تھا جہاں اُسے نشہ آور دوائیں کھلائی گئیں اور زیادتی کے بعد انتہائی وحشیانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا۔
پولیس نے جب ملزموں کی نشاندہی کی تو مقامی آبادی کے کچھ لوگ پولیس کے خلاف ہوگئے۔ آٹھ سالہ بچی کے بہیمانہ ریپ اور قتل کو مذہبی ٹکراؤ کا رنگ دے دیا گیا۔ جموں کے وکلا اور ایک دائیں بازو کی ہندو تنظیم نے ملزموں کی حمایت میں جلوس نکالے۔ اور وکیلوں نے فردِ جرم عائد کرنے کے لیے پولیس کو عدالت میں داخل ہونے سے روک دیا۔ ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دو وزرا نے ملزموں کے حق میں نکالے جانے والے جلوسوں میں شرکت کی۔
کسی باپ یا ماں کے لئے سب سے ہولناک واقعہ اپنے بچے کی موت ہے اور پھر اگر وہ موت، اغوا، ٹارچر اور زیادتی کا نتیجہ ہو تو شائد ایسے ماں باپ اپنی زندگی کے ہر لمحے میں، بار بار ان تفصیلات کو اپنے ذہن میں دہرا کر تڑپتے رہتے ہیں۔ آصفہ کے والد اختر صاحب بھی اس عالم برزخ میں ہیں ’’جب ہماری بچی کے ساتھ اتنا ہوگیا تو ہمیں بھی مار دیں! اس میں کیا ہے!! ہماری بچی کو سات دن کس طرح رکھا۔ کس بے رحمی سے قتل کیا گیا۔ اب ہم کو کیا خطرہ ہے۔ اتنی خوبصورت تھی وہ، اس کی باتوں سے ایسا لگتا تھا کہ کچھ بنے گی۔ اور اس کے ساتھ اتنی زیادتی کی گئی۔ اس کو اتنا ٹارچر کیا گیا۔ کرنٹ بھی لگایا۔ جب ہم نے اس کی ڈیڈ باڈی کو دیکھا تو۔۔۔ بہت بری طرح اس کو مارا تھا۔ میں بیان نہیں کر سکتا۔ دیکھ نہیں سکتا تھا۔ ہمارے جیسا آدمی۔ کوئی نہیں دیکھ سکتا ‘‘۔
یہ بات کہنے میں وہ کئی بار رکے۔ اپنے آنسوؤں پر قابو پانے کی کوشش کی۔ اور یہ بھی بتایا کہ ان کا ذہن بالکل سن ہوگیا ہے ’’کوئی بات یاد نہیں رہتی۔ ڈاکٹر نے بہت سی دوائیں دی ہیں تو اب بولنے کے قابل ہوا ہوں‘‘۔ ان کی پیاری بیٹی کی ایک تصویر ہر خبر کے ساتھ لگائی جاتی ہے۔ جامنی پھولدار کپڑوں میں، سنہری مائل بھورے بالوں اور چمکیلی آنکھوں والی گڑیا۔ جس کی بے خوف آنکھوں سےبھی ایسا لگتا تھا کہ ’’کچھ بنے گی‘‘۔
والد کے مطابق، ’’یہ اس کی زندگی کی پہلی اور آخری تصویر تھی۔ بڑے شوق سے کھنچوائی تھی اس نے‘‘۔ انہوں نے رندھی ہوئی آواز میں بتایا۔
بھارتی سپریم کورٹ نے جموں کے بعض وکلاء کی طرف سے، ایک بچی قتل اور زیادتی میں مبینہ طور پر ملوث افراد کے خلاف، پولیس کو فرد جرم دائر کرنے سے روکنے کی کوشش کے واقعہ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا تھا۔ اور ازخود کیس کا جائزہ لینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
اس کیس کی پیروی کرنے والی وکیل، دیپیکا رجاوت سے میں نے نئی دہلی میں بات کی۔ وہ کہتی ہیں: ’’سپریم کورٹ نے جو ’سوموٹو‘ ایکشن جاری کیا ہے اس کو میں انتہائی مثبت لے رہی ہوں۔ لگ رہا ہے کہ جو دیش کا سب سے بڑا کورٹ ہے، وہ کورٹ اگر اس ایشو پر جاگا ہے تو مجھے یقین ہے کہ اس بچی کو انصاف بہت جلد ملے گا‘‘۔
اس کیس میں ایک تازہ پیش رفت میں بھارتی سپریم کورٹ نے کشمیر کی حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ کٹھوعہ کی آٹھ سالہ بچی کے اہل خانہ اور ان کے وکیل کو تحفظ فراہم کرے۔ وہ یہ بھی بتائے کہ کیا اس معاملے کو سماعت کے لیے چنڈی گڑھ کی عدالت میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔
اس کیس پر کام کرنے والے برادری کے سرگرم کارکن، طالب حسین نے جہاں اس معاملے میں آصفہ کے خاندان کے ساتھ کھڑے ہونے والی ہندو برادری کو سراہا، وہاں انہیں یہ شکایت بھی تھی کہ نئی دہلی میں سیاست دانوں نے اس انسانیت سوز واقعے کو وہ توجہ نہیں دی جو نربھا کے المیے کو دی تھی۔ جب میں یہ بات کانگرس پارٹی کے ترجمان اور لوک سبھا کے سابق رکن میم افضل سے پوچھی تو انہوں نے اس کی تردید کی۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’نربھا کیس کی طرح اس واقعے نے بھی پورے ملک کو ہلا دیا ہے۔ اور راہول گاندھی سمیت پارٹی کی تمام بڑے لیڈروں نے اس کے خلاف بیان دئیے ہیں‘‘۔ تاہم، انہوں نے بڑے تاسف سے کہا ’’آج کل یہ بڑی عجیب و غریب بات ہوگئی ہے کہ کسی بچے کا ریپ ہو تو لوگ پوچھتے ہیں کہ اس کا مذہب کیا تھا؟ ارے بچے تو بچے ہیں۔ کسی کے بھی ہوں، ہندو ہوں، مسلمان ہوں، سکھ ہوں یا عیسائی‘‘۔
اور آصفہ کے باپ کی صرف ایک اپیل ہے کہ :’’ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہماری آصفہ کو انصاف دلا دو۔ ہماری چھوٹی سی بچی کے ساتھ جو ہوا، کل کسی اور کے ساتھ ہوگا تو کیا کر لیں گے؟ بس ان کو سزا ملنی چاہئے‘‘۔
Your browser doesn’t support HTML5