پاکستان کی سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دیے جانے کے بعد بھی یہی بازگشت سنائی دے رہی ہے کہ اس ریفرنس کی وجہ فیض آباد دھرنا کیس تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کئی اہم کیسز کی سماعت کرنے والے بینچوں میں شامل رہے ہیں۔ ان کے فیصلوں کو کبھی سراہا گیا تو کبھی حکام کی جانب سے اس پر تنقید بھی کی گئی۔
گزشتہ ہفتے ہی سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کردہ صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا ہے۔
اس ریفرنس سے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر بنایا گیا تھا لیکن حکام اس خیال کی نفی کرتے ہیں۔
فیض آباد دھرنا کیس ہی وہ اہم کیس تھا جس میں جسٹس فائز عیسیٰ نے براہِ راست فوج کو اس کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ فیض آباد دھرنا کیس کے بعد فوجی حلقے جسٹس فائز عیسیٰ سے ناراض ہو گئے تھے۔ ورنہ ماضی میں پاکستان کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل شجاع پاشا 'میمو کمیشن' میں اپنا بیان ریکارڈ کرانے خود چل کر عدالت گئے تھے۔
اُس کمیشن کے سربراہ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تھے۔ جن کے سنائے گئے 'میمو کمیشن' کے فیصلے کو بہت سراہا گیا تھا۔
اسٹیبلشمنٹ کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے کوئی مسئلہ ہے؟
پاکستان بار کونسل کے چیئرمین عابد ساقی کے مطابق اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے۔ وگرنہ انہوں نے آئین اور قانون کے مطابق کئی اہم فیصلے کیے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'فیض آباد دھرنا کیس' میں اسٹیبلشمنٹ کے مختلف اداروں کے حوالے سے جو باتیں سامنے آئی تھیں۔ وہ سچ تھیں لیکن اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ مستقبل کے چیف جسٹس کے ایسے ریمارکس نہیں ہونے چاہیے۔ اسی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ جسٹس فائز عیسی سے چھٹکارا چاہتی ہے۔
اس بارے میں سپریم کورٹ کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ان کی نظر میں اسٹیبلشمنٹ اور جسٹس عیسیٰ کے درمیان کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
اُن کے بقول جسٹس فائز عیسیٰ خود کو ایسے ظاہر کر رہے ہیں کہ ان کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مسائل یا لڑائی ہے۔ اگر ایسا کچھ ہوتا تو باقی ججز کے ساتھ ایسا کیوں نہیں ہے۔
اظہر ایڈووکیٹ کے مطابق باقی ججز غیر ضروری باتوں میں نہیں الجھتے۔ ان کے بقول جسٹس عیسیٰ کے علاوہ جسٹس وقار سیٹھ بھی غیر ضروری باتوں میں دخل اندازی کر رہے ہیں۔
SEE ALSO: 'چلو شکر ہے کسی کو تو انصاف ملا'اظہر ایڈووکیٹ نے دعویٰ کیا کہ جسٹس فائز عیسیٰ ایک مائنڈ سیٹ لے کر چل رہے ہیں جس کے تحت انہوں نے ملک میں احتساب اور عوامی مفاد کے لیے کوئی فیصلے نہیں دیے۔
ان کے بقول صدارتی ریفرنس میں جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے جو دستاویزات دینے میں 13 ماہ لگا دیے۔ اگر پہلے دن دے دیتیں تو معاملہ حل ہو جاتا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلوں میں فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ اس فیصلے کو جہاں سیاسی پنڈت فوج کے سیاسی کردار کے آگے بندھ باندھنے کے مترادف قرار دیتے ہیں وہیں ناقدین اس فیصلے سے متعلق کہتے ہیں کہ اس میں بہت سے قانونی سقم موجود ہیں۔
فیض آباد دھرنا کیا تھا؟
ختم نبوت کے حلف نامے سے متعلق آئین میں متنازع ترمیم کے خلاف مذہبی جماعت تحریکِ لبیک نے نومبر 2017 میں اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر دھرنا دیا تھا جو کئی روز تک جاری رہا تھا۔
مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طریقے سے ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی کے بعد حکومت نے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا تھا۔ جس میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔
ستائیس نومبر 2017 کو اُس وقت کے وزیرِ قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے گئے تھے اور آپریشن میں گرفتار کارکنوں کو رہا کر دیا گیا تھا۔
فیض آباد دھرنا فیصلے کے اہم نکات
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت کی اور اپنے 43 صفحات پر مشتمل فیصلے میں ریاستی سطح پر لاقانونیت اور تشدد پر اکسانے کی گزشتہ دس سالہ تاریخ لکھی۔ جس کا آغاز انہوں نے 12 مئی 2007 سے کیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ آئینِ پاکستان مسلح افواج کو سیاسی معاملات میں مداخلت یا کسی بھی سیاسی جماعت اور شخصیت کی حمایت سے روکتا ہے۔ لہذا مسلح افواج کے جن افراد نے حلف کی خلاف ورزی کی۔ ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔
فیصلے کے مطابق وردی والوں کو سیاسی معاملات سے دور رہنا چاہیے تھا۔ مگر اس کے برعکس دھرنے والوں میں نقدی بانٹی گئی۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت ایسے فوجی افسران کے خلاف وزارتِ دفاع، آرمی چیف، فضائیہ چیف اور نیول چیف کو کارروائی کے لیے کہے جو فیض آباد دھرنے میں پیش پیش تھے۔
فیصلے کے مطابق بد امنی پر اکسانے والے اور فتوے دینے والوں کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جائے۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں سن 2007 میں پیش آنے والے 12 مئی سانحے کا بھی ذکر کیا گیا تھا جس میں سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں کراچی میں وکلا کے ایک گروپ سمیت متعدد افراد کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ سانحہ 12 مئی کے مجرموں کو سزا نہ دے کر غلط مثال قائم کی گئی۔ 12 مئی 2007 کو جب عام شہریوں کا قتل عام ہوا۔ اُس وقت حکومت میں بیٹھنے والے آج بھی اہم عہدوں پر ہیں۔
فوج کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے فیصلے میں لکھا گیا تھا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے سیاسی معاملات پر تبصرے کیے اور کہا کہ تاریخ ثابت کرے گی کہ 2018 کے انتخابات شفاف تھے۔
فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں میڈیا کا ذکر
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے تحریر کردہ فیض آباد دھرنا کیس میں میڈیا کے کردار کا بھی ذکر تھا۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ چینل 92 نے ‘تحریک لبیک’ کو سپورٹ کیا۔ چینل کے مالکان دھرنے والوں کو خوراک فراہم کرتے رہے۔ پیمرا نے مذکورہ چینل کے خلاف کوئی نوٹس یا کارروائی نہیں کی اور پیمرا ‘ڈان’ اور ‘جیو’ کے نشریاتی حقوق کی حفاظت بھی نہیں کر سکا۔
دونوں چینلوں کو کنٹونمنٹ اور ڈی ایچ اے میں بند کر دیا گیا تھا۔ چینلز کی بندش پر پیمرا نے کوئی ایکشن نہیں لیا تھا۔
فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ الیکڑانک ذرائع سے نفرت انگیز تقاریر قابلِ سزا جرم ہیں لیکن الیکٹرانک ذرائع سے نفرت انگیزی پر کوئی تفتیش نہیں کی گئی۔
SEE ALSO: پاکستان میں دھرنوں اور لانگ مارچ کی تاریخفیصلے میں میڈیا اور سنسرشپ سے متعلق کہا گیا تھا کہ میڈیا کو سیلف سینسر شپ کی ہدایات جاری کرنا اور آزادانہ مؤقف دبانا غیر قانونی ہے۔ یہ ہدایات جاری کرنا کہ فلاں صحافی کو رکھ لو، فلاں کو فارغ کر دو۔ غیر قانونی ہے۔ اظہار رائے کی آزادی انسان کا بنیادی حق ہے۔
'آئی ایس آئی حکومتی معاملات میں مداخلت کرتی ہے'
فیصلے میں کہا گیا کہ آئی ایس آئی نے تحریک لبیک کی فنڈنگ اور ذریعۂ روز گار کے حوالے سے کوئی رپورٹ پیش نہیں کی۔ آئی ایس آئی کا نمائندہ اپنے دائرہ کار کے بارے میں بھی وضاحت نہیں کر سکا۔ آئی ایس آئی حکومتی معاملات میں مداخلت کرتی ہے۔ اس تاثر کی تردید بھی نہیں ہو سکی۔
فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ پارلیمنٹ نے ختم نبوت کے حوالے سے قانون میں غلطی کو درست کر دیا تھا۔ اس کے بعد تحریک لبیک نے دھرنا دیا جس کے دوران دھمکی اور گالیوں کا استعمال کیا گیا۔ وکلاء اور سائلین بھی عدالتوں میں نہ پہنچ سکے۔ طالب علم اسکولوں اور کالجوں میں نہ جا سکے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہنا تھا کہ تحریک لبیک نے دھرنے کے لیے انتظامیہ سے اجازت نہیں لی۔ دھرنا قیادت نے دھرنا منتقلی کے حوالے سے وعدے توڑے اور ملک میں نفرت کو ہوا دی۔
فیصلے کے مطابق آئی ایس آئی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید، اعجاز الحق اور تحریک انصاف علما ونگ نے حمایت میں آڈیو بیان جاری کیے۔ سیاست دانوں نے غیر ذمہ دارانہ بیانات کے ذریعے مزید آگ بھڑکائی۔ چند ٹاک شوز کے ذریعے عوام کو اکسایا گیا۔تحریک لبیک کو مفت میں تشہیر کر کے بڑی جماعت بنایا گیا۔
اس دھرنے کے دوران کیے گئے آپریشن کے حوالے سے فیصلے میں کہا گیا کہ دھرنے کے خلاف آپریشن میں 137 افراد زخمی ہوئے۔ دھرنا مظاہرین نے سی سی ٹی وی کیمروں کی تاریں بھی کاٹ دیں تھی۔ مذکورہ اقدامات ان کی بھر پور تیاری کی عکاسی کرتا ہے۔
فیض آباد دھرنا کیس: حساس ادارے اپنی حدود میں رہیں
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ حساس ادارے آزادیٔ اظہار رائے پر قدغن نہیں لگا سکتے اور وہ اپنی حدود سے تجاوز نہ کریں۔ فیصلے میں حکم دیا گیا کہ حساس اداروں کی حدود طے کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ریاست شہریوں کے بنیادی حقوق کو تحفظ دینے میں مکمل ناکام رہی۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں تھی۔ ریاستی اداروں کے درمیان تعاون کا فقدان تھا۔ تحریک لبیک نے اسلام آباد ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے احکامات کو ہوا میں اڑا دیا۔ قانون شکنی پر سزا نہیں ہو گی تو قانون شکنوں کا حوصلہ بڑھے گا۔
جسٹس فائز عیسیٰ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے اختلاف
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بعد ثاقب نثار نے سب سے زیادہ از خود نوٹس لیے تھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس کارروائی پر بھی اعتراض کیا تھا۔
پشاور میں آرمی پبلک اسکول حملہ کیس کی از خود نوٹس کی سماعت کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے ہیومن رائٹس سیل کے پاس براہِ راست کوئی اختیار نہیں کہ درخواست کو از خود نوٹس میں تبدیل کیا جائے۔
اُن کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 184 تھری کے تحت پہلے سپریم کورٹ کا آرڈر ضروری ہے۔
اس سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے اچانک عدالت برخاست کر دی تھی اور کچھ دیر بعد جب عدالت دوبارہ لگی تو بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسی شامل نہیں تھے۔
فوجی عدالتوں کی مخالفت
سپریم کورٹ کی فل کورٹ نے جب 2015 میں چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں فیصلہ دیا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ان چھ ججوں میں شامل تھے جنھوں نے فوجی عدالتوں کی مخالفت کی تھی۔
ان ججوں کا مؤقف تھا کہ فوجی عدالتوں کا قیام عدلیہ کی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
تاہم اس وقت کی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اس فیصلے کو قوم کی فتح قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ ان عدالتوں کی مدد سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے گا۔
جسٹس عیسیٰ اور فوجی حراستی مراکز کے خلاف کیس
سپریم کورٹ نے اکتوبر 2019 میں پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے ‘ایکشن ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشن آرڈینس’ کو ختم کیے جانے کے فیصلے کے خلاف درخواست پر فل کورٹ تشکیل دیا تو اس میں دیگر ججز کے علاوہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی شامل تھے۔
عدالت عظمی نے اس اپیل پر خود کسی فیصلے پر پہنچنے تک پشاور کی عدالت کا فیصلہ معطل کر دیا تھا۔
پشاور ہائی کورٹ نے 17 اکتوبر 2019 کے اسے فیصلے میں ان حراستی مراکز کو تین روز میں صوبائی پولیس کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا۔
اس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس وقت کے اٹارنی جنرل انور منصور خان سے سخت سوالات کیے تھے اور ان حراستی مراکز کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھائے تھے۔
کوئٹہ دھماکہ کمیشن رپورٹ
سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2016 کے کوئٹہ کی سول اسپتال خودکش حملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کیا تو اس کی سربراہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو دی گئی تھی۔
اس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے اور ساتھ میں کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔
کمیشن نے نیشنل ایکشن پلان کو مناسب طریقے سے ترتیب دینے کی ضرورت پر زور دینے کے ساتھ انسدادِ دہشت گردی کے ادارے ‘نیکٹا’ کی ناقص کارکردگی پر تنقید بھی کی تھی۔
جسٹس عیسیٰ کی سربراہی میں قائم اس کمیشن نے اس وقت کے وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار سے کالعدم تنظیم ‘اہل سنت و الجماعت’ کے سربراہ محمد احمد لدھیانوی سے ملاقات پر بھی سوال اٹھایا تھا۔
البتہ چوہدری نثار نے ان الزامات کو ذاتی قرار دیا تھا۔ بعد ازاں حکومت نے کمیشن کی رپورٹ پر نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے کا اعلان کیا تھا۔