امریکہ کی سپریم کورٹ کے جسٹس کلیرنس تھامس اور ری پبلکن ڈونر اور ریئل اسٹیٹ ڈویلپر ہارلن کرو کے درمیان جائیداد کی لین دین کا بھی انکشاف ہوا ہے۔
تحقیقاتی صحافت کرنے والے ادارے پروپبلکا کی ایک رپورٹ کے مطابق ہارلن کرو نے جسٹس کلیرنس تھامس اور ان کے خاندان کی تین جائیدادیں خریدیں جس کے لیے ایک لاکھ ڈالر سے زائد کی ادائیگی کی گئی۔ لیکن جسٹس تھامس نے اس ڈیل کے بارے میں کبھی رپورٹ نہیں کیا۔
واضح رہے کہ پروپبلکا نے اس سے قبل یہ رپورٹ کیا تھا کہ ری پبلکن ڈونر ہارلن کرو دہائیوں سے جسٹس تھامس اور ان کی اہلیہ کو پرتعیش دورے کراتے رہے جن پر لاکھوں ڈالرز خرچ کیے گئے۔ ان دوروں میں ذاتی جیٹ طیارے اور پرتعیش کشتیوں کی سیر سمیت ریزورٹ میں ٹھہرنا بھی شامل ہے۔
لیکن جسٹس تھامس نے اپنے ان دوروں کا ذکر مالی معاملات سے متعلق فارمز میں نہیں کیا تھا۔ جسٹس تھامس نے کہا تھا کہ انہوں نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ جو دورے کیے ان کو ریکارڈ پر لانا کوئی قانونی تقاضا نہیں تھا۔
حالیہ رپورٹ میں سال 2014 میں جسٹس تھامس اور ہارلن کرو کی جائیداد کے لین دین کے بارے میں بتایا گیا ہے جو ان دونوں کے درمیان براہ راست مالی لین دین کا پہلا عوامی ثبوت ہے۔
پروپبلکا نے ریاستی ٹیکس دستاویزات اور پراپرٹی ڈیڈز کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ ہارلن کرو کی کمپنیز نے جارجیا میں ایک گھر اور اس کے قریب دو پلاٹس کے لیے ایک لاکھ 33 ہزار 363 ڈالر کی ادائیگی کی۔
SEE ALSO: ذاتی دوستوں کی ’مہمان داری‘ کو ریکارڈ پر لانا ضروری نہیں تھا، جسٹس تھامسرپورٹ کے مطابق اس گھر میں تھامس کی والدہ رہتی تھیں جب کہ ان پلاٹس کا تعلق تھامس کے گھر کے افراد سے تھا۔
امریکہ میں سپریم کورٹ کے جسٹس سمیت وفاقی حکام کو زیادہ تر ان ریئل اسٹیٹ کی ٹرانزیکشن ظاہر کرنا ضروری ہوتا ہے جن کی مالیت ایک ہزار ڈالر سے زائد ہو۔
جسٹس تھامس کو اس ٹرانزیکشن سے متعلق اس صورت میں رپورٹ کرنا ضروری نہ ہوتا اگر یہ جائیداد ان کی یا ان کی بیوی کی مستقل ذاتی رہائش گاہ ہوتی۔
ہارلن کرو نے ان حالیہ انکشاف پر کہا ہے کہ انہوں نے جسٹس تھامس کی میراث کے احترام میں اس خریداری کے لیے تھامس سے رابطہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ "میرا ارادہ ہے کہ ایک دن کلیرنس تھامس کے گھر میں ایک عوامی میوزم بنےجو ہمارے ملک کے دوسرے سیاہ فام سپریم کورٹ کے جسٹس کی کہانی سنانے کے لیے وقف ہو۔"
ان کے بقول جسٹس تھامس کی کہانی بہترین امریکہ کی نمائندگی کرتی ہے۔
جسٹس تھامس نے اس معاملے پر فی الحال کوئی ردِعمل نہیں دیا ہے۔
اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔