ویب ڈیسک: امریکہ کی سپریم کورٹ کے جج جسٹس کلیرنس تھامس نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ ایک بڑے ری پبلکن ڈونر ہارلن کرو کے ساتھ جو دورے کیے، ان کو ریکارڈ پر لانا کوئی قانونی تقاضا نہیں تھا۔
پرتعیش دوروں سے متعلق رپورٹ منظرِ عام پر آنے اور ڈیموکریٹ سینیٹرز کی طرف سے معاملے کی تحقیقات کے مطالبے کے بعد جسٹس تھامس نے اپنا پہلا بیان جمعے کے روز جاری کیا ہے۔
جسٹس تھامس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ان کے دورے ربع صدی پر محیط ذاتی اور خاندانی مراسم کے زمرے میں آتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے عدالت کے ساتھ وابستگی کے ابتدائی دور میں اپنے کولیگز اور عدلیہ میں موجود دیگر افراد سے اس بارے میں راہنمائی لی تھی اور انہیں بتایا گیا تھا کہ ایسے قریبی دوستوں کے ساتھ ذاتی نوعیت کی مہمان داری یا خاطر تواضح کے بارے میں، جن کا کوئی بھی معاملہ عدالت کے سامنے موجود نہ ہو، چیزیں ریکارڈ پر لانا ضروری نہیں ہے۔
’’ جیسے دوستوں میں ہوتا ہے، ہم نے ( کرو اور ان کی اہلیہ) کے ساتھ پچھلے پچیس برسوں کے تعلقات کے دوران کئی دورے کیے ہیں۔ میں نے عدالت کے ساتھ اپنے کیئریر کے ابتدائی دنوں میں اپنے کولیگز اور عدلیہ کی دیگر شخصیات سے راہنمائی مانگی تھی اور مجھے مشورہ میں بتایا گیا تھا کہ ذاتی دوستوں کے ساتھ اس نوعیت کی خاطر تواضح یا مہمان داری کو رپورٹ کرنےکی ضرورت نہیں ہوتی جن دوستوں کا کوئی بھی معاملہ عدالت کے سامنے موجود نہ ہو‘‘۔
جسٹس کلیرنس تھامس کو ری پبلکن بزنس مین ہارلن کرو کے خرچ پر پر تعیش دورے کرنے اور دیگر فوائد حاصل کرنے کے الزامات کا سامنا ہے۔
تحقیقاتی صحافت کرنے والے ادارے 'پرو پبلکا' نے جمعرات کو اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ ری پبلکن ڈونر ہارلن کرو دو دہائیوں سے جسٹس کلیرنس کو اپنے ذاتی جیٹ طیارے اور پرتعیش بحری کشتیوں میں شاہانہ دورے کرا رہے ہیں لیکن جج نے اپنے مالی معاملات سے متعلق فارمز میں ان کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
رپورٹ کے مطابق سال 2019 میں مسٹر تھامس کے انڈونیشیا کے دورے پر، جس میں ایک چارٹر طیارہ اور بحری کشتی استعمال ہوئے، پانچ لاکھ ڈالر سے زیادہ خرچ آیا۔
امریکی قانون کے تحت ایک وفاقی جج کو خود کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات ہر سال گوشواروں میں ظاہر کرنا ہوتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جج تھامس ہارلن کرو کے نجی طیارے اور پرتعیش کشتی میں امریکہ سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں گھومتے پھرتے رہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جسٹس تھامس نے جس تواتر سے یہ دورے کیے اس کی امریکی سپریم کورٹ کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
ہارلن کرو نے 'پرو پبلکا' کو بتایا ہے کہ جسٹس تھامس اور ان کی اہلیہ 1996 سے ان کے دوست ہیں اور انہوں نے کسی قانونی یا سیاسی معاملے میں جج پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں کی۔
جسٹس تھامس نے اپنے وضاحتی بیان میں مزید کہا ہے وفاقی قانون حکومت کی تینوں شاخوں بشمول سپریم کورٹ کے عہدیداروں کے اپنے مالی وسائل، بیرونی آمدن اور شریک حیات کی آمدن کی تفصیل دینے کا متقاضی ہے۔ حکومت کی ہر برانچ کے (وسائل سے متعلق) رپورٹنگ کے اپنے معیارات ہیں۔ ان کے بقول ججز کو کسی بھی ایسے شخص سے تحقہ لینے سے منع کیا گیا ہے جس کا کوئی معاملہ عدالت کے سامنے موجود ہو۔ حاضر وقت تک، جسٹس تھامس کے الفاظ میں، جوڈیشل برانچ نے صاف الفاظ میں وضاحت نہیں کی کہ آیا ذاتی مہمانداری یا خاطر تواضح کو بطور ’تحفہ‘ استثنی حاصل ہے یا نہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ضابطہ اخلاق کے ماہرین کی اس بارے میں رائے منقسم ہے کہ آیا جسٹس تھامس کو ان دوروں کی تفصیل داخل کرانی چاہیے تھی یا نہیں۔
(اس خبر کے لیے مواد ایسوسی ایٹڈ پریس اور واشنگٹن پوسٹ سے لیا گیا)