افغانستان میں حکام نے سلامتی کے شدید خطرے کے پیش نظر لوگوں کو کابل میں جلوس اور مظاہروں سے گریز کرنے کی ہدایت کی ہے جب کہ رواں ہفتے ہونے والے بم دھماکے کے خلاف لوگوں کا احتجاج ہفتہ کو دوسرے روز بھی جاری ہے۔
بدھ کو ہونے والے ٹرک بم حملے میں 90 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوگئے تھے اور اس بدترین مہلک حملے میں انسانی جانوں کے ضیاع پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے جمعہ کو لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے صدارتی محل کے قریب مظاہرہ کیا۔
مظاہرین جب منتشر ہونے کی بجائے صدارتی محل کی طرف بڑھنے لگے تو وہاں پولیس کی طرف سے کی گئی فائرنگ سے کم از کم چار مظاہرین ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔
ہفتہ کو بھی اسی جگہ پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جن کی اکثریت نے رات بھی یہیں گزاری۔
افغان وزارت داخلہ نے نائب وزیر مراد علی مراد نے ہفتہ کو مظاہرین سے مطالبہ کیا کہ وہ سلامتی کے شدید خطرے کے باعث یہاں سے منتشر ہو جائیں۔ ان کے بقول صدر اشرف غنی نے اٹارنی جنرل کو حکم دیا ہے کہ جمعہ کو پیش آنے والے فائرنگ کے واقعے کی تحقیقات کی جائیں۔
مظاہرین بم دھماکے کو سکیورٹی کی ایک بڑی ناکامی قرار دیتے ہوئے صدر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ادھر کابل میں فوجی حکام نے بھی دہشت گردی کے ممکنہ خطرے کے پیش نظر مظاہرین سے منتشر ہونے کا کہا ہے۔
کابل بم دھماکے کی جگہ کے قریب ہی احتجاج کرنے والوں نے عارضی خیمے بھی نصب کر لیے ہیں۔
حکام نے لوگوں سے کہا کہ وہ مظاہروں سے اجتناب کریں اور ان بقول سکیورٹی فورسز کسی بھی ممکنہ دہشت گرد حملے کو رونما ہونے سے روکنے اور لوگوں کی سلامتی کے لیے دن رات کوشاں ہیں اور لوگوں کو چاہیے کہ وہ ریلیاں اور جلوس نکالنے سے گریز کریں۔