افغان عہدےداروں نےکہا ہےکہ نیٹو فورسزکی مدد سےحکومتی فوج کے ہاتھوں طالبان جنگجوؤں کا ایک سیل اپنےانجام کو پہنچنے والا ہے، جس نے ہفتے کوقندھار کےجنوبی شہر میں حکومتی عمارتوں پر حملہ کیا تھا۔
اتوار کو قندھار میں وقفے وقفے سے فائرنگ کی آوازیں سنائی دیتی رہیں جب کہ افغان فوجیوں نےمتعدد باغیوں کو گھیرے میں لے رکھا ہے، جو افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسی کےمقامی ہیڈکوارٹرز کے قریب ایک عمارت میں چھپے ہوئے ہیں۔
افغان حکام نے کہا ہے کہ وہ تمام سرکاری عمارتیں جہاں سے طالبان نے ایک روز قبل حملے کیے تھے اُنھیں خالی کرالیا گیا ہے۔ قندھار کی سڑکیں اجاڑ ہیں۔
طالبان جنگجو، جو بندوقوں، راکٹ سے داغے جانے والے گرنیڈ اور خودکش جیکٹوں سے مسلح ہیں، اُنھوں نے قندھار کے گورنر کے دفتر، پولیس کی عمارتوں اور انٹیلی جنس ایجنسی پر حملے کیے ہیں۔ طالبان کی طرف سے افغان حکومت اور اتحادی فورسز کے خلاف اِس سال کے موسمِ بھار میں شروع کیے گئےحملوں میں یہ سب سے بڑا حملہ تھا۔
افغان عہدے داروں نے کہا ہے کہ گروپ کے آغاز اوراُس کے سابق گڑھ پر کی جانے والی کارروائی میں کم از کم 20طالبان جنگجو ہلاک ہوئے ہیں، جن میں آٹھ خودکش حملہ آور شامل تھے جنھوں نے اپنے آپ کو بھک سے اڑا دیا تھا۔
حملہ آوروں نے چار افراد کو ہلاک اور 40دیگر افراد کو زخمی کردیا تھا جن میں افغان شہری اور سکیورٹی اہل کار شامل ہیں۔ چار باغی پکڑے جاچکے ہیں۔
حکام نے کہا کہ قندھار پر حملہ کرنے والے زیادہ تر باغی وہ ہیں جو گذشتہ ماہ سارپوسہ کے شہر کے مرکزی قیدخانے سے باہر سے کھودی گئی ایک سرنگ کے ذریعے بھاگ نکلے تھے۔
طالبان نے کہا ہے کہ ہفتے کے دِن ہونے والے حملوں کی ہفتوں قبل منصوبہ بندی کی گئی تھی ، جس میں 100سے زائد جنگجو ملوث تھے۔ گروپ اپنی کارروائیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لیے مشہور ہے۔