طالبان نے ہفتے کے روز افغانستان کے جنوبی شہر قندھار میں کئی منظم ہلاکت خیز حملے کیے جس کے نتیجے میں تاجروں نے خوف زدہ ہوکر اپنی دکانیں بند کردیں اور لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگ پڑے۔
قندھار کے گورنر وصی نے ہفتے کی شام نامہ نگاروں کو بتایا کہ طالبان کے حملوں میں کم ازکم دو افراد ہلاک اور 20 زخمی ہوگئے۔
قندھار میں طالبان کے حملے دوپہر سے کچھ ہی بعد گورنر وصی کی رہائش گاہ پر راکٹوں، گرینیڈوں اور چھوٹے ہتھیاروں سے پر حملے کے ساتھ ہی شروع ہوگئے تھے۔
اس حملے کے کئی گھنٹوں کے بعد بھی عینی شاہدین نے بتایا کہ شہر کے مختلف حصوں سے گولیاں چلنے کی آوازیں آرہی تھی اور فضامیں ہیلی کاپٹر گردش کررہے تھے۔
اتحادی افواج کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان نے اپنے حملوں کے دوران پولیس کی کم ازکم تین عمارتوں اور افغان اور اتحادی افواج کے زیر استعمال متعدد عمارتوں کو نشانہ بنایا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکام کوخدشہ ہے کہ ان حملوں میں پانچ سے زیادہ خودکش بمباروں نے بھی حصہ لیا۔
اتحادی افواج کا کہناہے کہ انہوں نے حفاظتی انتظامات کے لیے افغان فورسز کو مدد فراہم کی۔ رپورٹ کے مطابق تین کاروں میں نصب بموں کو پھٹنے سے پہلے ہی ناکارہ بنا دیا گیا۔
افغان صدر حامد کرزئی نے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہاہے کہ طالبان اور القاعدہ ، پاکستان میں بن لادن کی ہلاکت کے بعد اپنی کمزوریاں چھپانے کے لیے تشدد کا سہارا لے رہے ہیں۔
طالبان کے ایک ترجمان نے حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعوی ٰ کیا ہے۔ جب کہ اس دعویٰ سے ایک ہفتہ قبل طالبان کے ایک گروپ نے اعلان کیا تھا کہ وہ موسم بہار کے اپنے سالانہ حملوں کا جلد آغاز کرنے والے ہیں۔
قندھار پر تازہ حملے ، جمعے کے روزمنظر عام پرآنے والے طالبان کے اس بیان کے بعد ہورہے ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں امریکی خصوصی دستوں کے ہاتھوں اسامہ بن لادن کی ہلاکت سے شورش میں تیزی آئے گی۔
افغانستان کا صوبہ قندھار شورش پسندوں کا ایک اہم مضبوط گڑھ ہے اور اس تحریک نے اسی علاقے سے جنم لیا ہے۔ افغان اور اتحادی افواج مشترکہ طورپر اس علاقے میں حکومت کی عمل داری اور امن وامان قائم کرنے کی کوششیں کررہی ہیں۔