عام طور پر ہڑتال کے دن چار بجے کے بعد سے کاروبار زندگی معمول پر آنے لگتا ہے لیکن اس جمعے کو ایسا نہیں ہوا، بلکہ شام گئے تک پرتشدد واقعات کی خبریں آتی رہیں۔
کراچی میں جمعہ کا پورا دن گستاخانہ فلم کے خلاف عوامی اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے احتجاجی مظاہروں، جلاوٴ گھیراوٴ، فائرنگ اور پتھراوٴ میں گزرا۔ سورج غروب ہونے تک ایک درجن سے زائد افراد ان ہنگاموں میں لقمہ اجل بن گئے جبکہ کئی درجن افراد زخمی بھی ہوئے۔ شہر کی مین شاہراہوں پر ہی نہیں بلکہ گلی محلوں میں بھی سارا دن ٹائر، پرانا فرنیچر اور کاٹھ کباڑ نذر آتش کیا جاتا رہا۔
عمومی طور پر ہڑتال کے دن چار بجے سے کاروبار زندگی معمول پر آنے لگتا ہے لیکن جمعہ کو ایسا نہیں ہوا بلکہ شام گئے تک پرتشدد واقعات کی خبریں آتی رہیں۔ ایک جانب ٹاور کے قریب واقع پی آئی ڈی سی پل امریکی قونصلیٹ جانے کی کوشش کرنے والے مظاہرین کے ساتھ کئی گھنٹے تک پولیس کی فائرنگ، شیلنگ اور جھڑپیں جاری رہی تو دوسری جانب شہر کا کوئی چوراہا ایسا نہیں تھا جہاں آگ نہ لگائی گئی ہو۔
گوکہ پولیس نے گزشتہ شب ہی ریڈ زون اور امریکی قونصل خانے تک جانے والے تمام راستے سیل کردیئے تھے تاہم مظاہرین کی کوشش تھی کہ ان رکاوٹوں کو عبور کرکے کسی بھی طرح قونصلیٹ پہنچا جائے۔ پولیس کے مطابق اس کوشش میں پی آئی ڈی سی پل پر جھڑپوں کے دوران ایک پولیس اہلکارسمیت دو افراد ہلاک ہوگئے۔
اس دوران دن بھر صدر، ایم اے جناح روڈ، لیاقت آباد، ناظم آباد، نارٹھ ناظم آباد، تین ہٹی، سائٹ، غنی چورنگی، شیرشاہ، ناگن چورنگی ، سہراب گوٹھ اور گولیمار سمیت شہر کے تقریباً ہر حصے میں مظاہرین کی جانب سے جلاوٴ گھیراوٴ کیا جاتا رہا۔اس ہنگامہ آرائی میں مجموعی طور پر 5 سنیماہالز، 5 بینکوں ،4 پولیس موبائلز ،4فرنچائز ہوٹلز کچھ سرکاری عمارتوں، متعدد گاڑیوں اور نصف درجن سے زائد موٹر سائیکلوں کو آگ لگادی گئی۔
شام ڈھلے تک مختلف اسپتالوں اور پولیس ذرائع سے 14افراد کی ہلاکت اور 80سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ان اطلاعات کے بعد شہر بھر میں 5بجے کے بعد بحال ہونے والی موبائل فون سروس دوبارہ بند کردی گئی ۔ اس دوران وائس آف امریکہ کے نمائندے نے جمعہ کو شہر کے متعدد علاقوں کا دورہ کیا اور مظاہرین سمیت متعدد افراد سے ان کے خیالات جاننے کی کوشش کی۔
شیرشاہ چورنگی پر لب سڑک ٹائرز کوآگ لگانے والے ایک نوجوان گل افسر سے جب نمائندے نے یہ پوچھا کہ اس طرح آگ لگانے کا مقصد کیا ہے تو اس نے جواب دیا” حکومت“ نے اسلام کے خلاف فلم بناکر ہماری غیریت کو للکارا ہے۔۔ابھی اس کو پتہ چلے گا تو آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔۔۔“
اس دوران کئی اور نوجوانوں نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان نوجوانوں میں سے ایک دو کو چھوڑ کر تمام کے تمام بے روز گار تھے ۔ کچھ ہی فاصلے پر موجود ایک بزرگ اور اورنگی کے رہائشی عبدالجبار کا کہنا تھا کہ یہ نوجوان ”شغلی“ہیں۔ ان کے پاس کام وام نہیں اس لئے شغل کے طور پر گھروں سے نکل آئے اور لکڑیاں وغیرہ جمع کرکے آگ لگا رہے ہیں۔ کچھ کام نہ ہوتو وقت کیسے کٹے گا۔۔اس لئے یہی مصرف سہی۔۔“
ادھر لی مارکیٹ پر نامعلوم افراد نے پولیس کی ایک بکتر بند گاڑی پر پہلے فائرنگ کی اور اس کے بعد اْسے نذر آتش کردیا۔ نیٹی جیٹی پر مشتعل افراد نے کچھ سرکاری عمارتوں میں گھس کر انہیں بھی نذر آتش کردیا تاہم پولیس فوراً ہی موقع پر پہنچ گئی ۔ کئی نوجوانوں کوپولیس نے دبوچ لیا اور سرعام پٹائی کرتے ہوئے انہیں گرفتار بھی کرلیا۔
ایم اے جنا ح روڈ پر واقع دو سنیماگھروں نشاط اور کیپری کو بھی نذر آتش کردیا گیا جبکہ قائد آباد میں واقع ایک اور سنیماگھر کو جلا دیا گیا ۔ لیاقت آباد، شاہراہ فیصل، ایم اے جناح روڈ اورلی مارکیٹ سمیت کئی علاقوں میں درجنوں گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی۔
نمائش چورنگی، اسٹار گیٹ ،ناظم آباد سات نمبر، نارتھ ناظم آباد اور ناگن چورنگی پر انگنت نوجوان دن بھر موٹر سائیکلوں پر ٹائر، لکڑی کا پرانا فرنیچر، درختوں کی ٹہنیاں اور آسانی سے نذر آتش کیا جاسکنے والا دیگر سامان لا لاکر جلاتے رہے۔ ان مقامات پر پولیس بھی موجود رہی لیکن ایسا لگتا تھا کہ وہ کچھ کرنے سے قاصر ہے ۔ پولیس کی خاموشی سے نوجوانوں کے حوصلے بلند ہوتے رہے۔
اس دوران متعدد لوگوں نے ان پر تشدد مظاہروں کی سخت الفاظ میں مذمت بھی کی۔ شادمان ٹاوٴن کے رہائشی محمد شکیل کا کہنا تھا کہ یہ مظاہرے کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ، ان سے اپنا ہی نقصان ہے۔ ایک دن پورا ملک بند رہا ، اربوں روپے کا نقصان ہوا، لاکھوں روپے کی املاک، گاڑیاں اور سامان خاک ہوگیا، کسی کا کیا گیا۔ جن کی دشمنی میں اپنا ہی مالی نقصان کیاا، اب یہ چیزیں دوبارہ بنانے کے لئے انہی سے قرض بھی لینا پڑے گا۔ پاکستان اس طرح کے مظاہروں کا کسی صورت متحمل نہیں ہوسکتا۔ احتجاج کرنے کے بہت سے پرامن طریقے ہوسکتے تھے مگر ان پر کسی نے توجہ ہی نہیں دی ۔۔۔یہ کیسا احتجاج ہے؟“
عمومی طور پر ہڑتال کے دن چار بجے سے کاروبار زندگی معمول پر آنے لگتا ہے لیکن جمعہ کو ایسا نہیں ہوا بلکہ شام گئے تک پرتشدد واقعات کی خبریں آتی رہیں۔ ایک جانب ٹاور کے قریب واقع پی آئی ڈی سی پل امریکی قونصلیٹ جانے کی کوشش کرنے والے مظاہرین کے ساتھ کئی گھنٹے تک پولیس کی فائرنگ، شیلنگ اور جھڑپیں جاری رہی تو دوسری جانب شہر کا کوئی چوراہا ایسا نہیں تھا جہاں آگ نہ لگائی گئی ہو۔
گوکہ پولیس نے گزشتہ شب ہی ریڈ زون اور امریکی قونصل خانے تک جانے والے تمام راستے سیل کردیئے تھے تاہم مظاہرین کی کوشش تھی کہ ان رکاوٹوں کو عبور کرکے کسی بھی طرح قونصلیٹ پہنچا جائے۔ پولیس کے مطابق اس کوشش میں پی آئی ڈی سی پل پر جھڑپوں کے دوران ایک پولیس اہلکارسمیت دو افراد ہلاک ہوگئے۔
اس دوران دن بھر صدر، ایم اے جناح روڈ، لیاقت آباد، ناظم آباد، نارٹھ ناظم آباد، تین ہٹی، سائٹ، غنی چورنگی، شیرشاہ، ناگن چورنگی ، سہراب گوٹھ اور گولیمار سمیت شہر کے تقریباً ہر حصے میں مظاہرین کی جانب سے جلاوٴ گھیراوٴ کیا جاتا رہا۔اس ہنگامہ آرائی میں مجموعی طور پر 5 سنیماہالز، 5 بینکوں ،4 پولیس موبائلز ،4فرنچائز ہوٹلز کچھ سرکاری عمارتوں، متعدد گاڑیوں اور نصف درجن سے زائد موٹر سائیکلوں کو آگ لگادی گئی۔
شام ڈھلے تک مختلف اسپتالوں اور پولیس ذرائع سے 14افراد کی ہلاکت اور 80سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ان اطلاعات کے بعد شہر بھر میں 5بجے کے بعد بحال ہونے والی موبائل فون سروس دوبارہ بند کردی گئی ۔ اس دوران وائس آف امریکہ کے نمائندے نے جمعہ کو شہر کے متعدد علاقوں کا دورہ کیا اور مظاہرین سمیت متعدد افراد سے ان کے خیالات جاننے کی کوشش کی۔
شیرشاہ چورنگی پر لب سڑک ٹائرز کوآگ لگانے والے ایک نوجوان گل افسر سے جب نمائندے نے یہ پوچھا کہ اس طرح آگ لگانے کا مقصد کیا ہے تو اس نے جواب دیا” حکومت“ نے اسلام کے خلاف فلم بناکر ہماری غیریت کو للکارا ہے۔۔ابھی اس کو پتہ چلے گا تو آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔۔۔“
اس دوران کئی اور نوجوانوں نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان نوجوانوں میں سے ایک دو کو چھوڑ کر تمام کے تمام بے روز گار تھے ۔ کچھ ہی فاصلے پر موجود ایک بزرگ اور اورنگی کے رہائشی عبدالجبار کا کہنا تھا کہ یہ نوجوان ”شغلی“ہیں۔ ان کے پاس کام وام نہیں اس لئے شغل کے طور پر گھروں سے نکل آئے اور لکڑیاں وغیرہ جمع کرکے آگ لگا رہے ہیں۔ کچھ کام نہ ہوتو وقت کیسے کٹے گا۔۔اس لئے یہی مصرف سہی۔۔“
ادھر لی مارکیٹ پر نامعلوم افراد نے پولیس کی ایک بکتر بند گاڑی پر پہلے فائرنگ کی اور اس کے بعد اْسے نذر آتش کردیا۔ نیٹی جیٹی پر مشتعل افراد نے کچھ سرکاری عمارتوں میں گھس کر انہیں بھی نذر آتش کردیا تاہم پولیس فوراً ہی موقع پر پہنچ گئی ۔ کئی نوجوانوں کوپولیس نے دبوچ لیا اور سرعام پٹائی کرتے ہوئے انہیں گرفتار بھی کرلیا۔
ایم اے جنا ح روڈ پر واقع دو سنیماگھروں نشاط اور کیپری کو بھی نذر آتش کردیا گیا جبکہ قائد آباد میں واقع ایک اور سنیماگھر کو جلا دیا گیا ۔ لیاقت آباد، شاہراہ فیصل، ایم اے جناح روڈ اورلی مارکیٹ سمیت کئی علاقوں میں درجنوں گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی۔
نمائش چورنگی، اسٹار گیٹ ،ناظم آباد سات نمبر، نارتھ ناظم آباد اور ناگن چورنگی پر انگنت نوجوان دن بھر موٹر سائیکلوں پر ٹائر، لکڑی کا پرانا فرنیچر، درختوں کی ٹہنیاں اور آسانی سے نذر آتش کیا جاسکنے والا دیگر سامان لا لاکر جلاتے رہے۔ ان مقامات پر پولیس بھی موجود رہی لیکن ایسا لگتا تھا کہ وہ کچھ کرنے سے قاصر ہے ۔ پولیس کی خاموشی سے نوجوانوں کے حوصلے بلند ہوتے رہے۔
اس دوران متعدد لوگوں نے ان پر تشدد مظاہروں کی سخت الفاظ میں مذمت بھی کی۔ شادمان ٹاوٴن کے رہائشی محمد شکیل کا کہنا تھا کہ یہ مظاہرے کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ، ان سے اپنا ہی نقصان ہے۔ ایک دن پورا ملک بند رہا ، اربوں روپے کا نقصان ہوا، لاکھوں روپے کی املاک، گاڑیاں اور سامان خاک ہوگیا، کسی کا کیا گیا۔ جن کی دشمنی میں اپنا ہی مالی نقصان کیاا، اب یہ چیزیں دوبارہ بنانے کے لئے انہی سے قرض بھی لینا پڑے گا۔ پاکستان اس طرح کے مظاہروں کا کسی صورت متحمل نہیں ہوسکتا۔ احتجاج کرنے کے بہت سے پرامن طریقے ہوسکتے تھے مگر ان پر کسی نے توجہ ہی نہیں دی ۔۔۔یہ کیسا احتجاج ہے؟“