کراچی پولیس کے سربراہ اے آئی جی غلام قادر تھیبو کا کہنا ہے کہ کراچی نیول ڈاکیارڈ پرحملے میں مبینہ طور پر اے آئی جی سندھ شیر جاکھرانی کا بیٹا۔۔ اویس جاکھرانی بھی ملوث تھا ’جو جوابی کاروائی میں مارے گئے‘۔
بتایا جاتا ہے کہ اُن کی لاش کراچی کے ساحلی علاقے ’کالاپانی‘ کے قریب سے برآمد ہوئی۔
فوری طور پر اُن کی شناخت نہیں ہوسکی تھی۔ لہذا، لاش کو ایدھی سرد خانے میں رکھوا دیا گیا تھا، جہاں بتایا جاتا ہے کہ پیر کی رات اُن کے کچھ قریب رشتے داروں نے اُنھیں شناخت کیا۔
کراچی کے دو موٴقر اخبارات روزنامہ ’ڈان‘ اور ’ایکسپریس‘ اور انہی اداروں کے نجی ٹی وی چینلز نے اے آئی جی غلام قادر تھیبو کے حوالے سے کہا ہے کہ ان کے بقول ’اویس جاکھرانی نے 4 ماہ قبل نیوی کی ملازمت چھوڑی تھی۔
بقول اُن کے، شواہد سے لگتا ہے کہ اویس نے ساتھیوں کے ہمراہ ڈاکیارڈ پر حملہ کیا۔ تاہم، جوابی کاروائی کے نتیجے میں اسے گولیاں لگیں اور وہ ہلاک ہوگیا۔
گزشتہ روز پاک بحریہ کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ہفتے کی شب نامعلوم حملہ آوروں نے جدید اسلحہ سے لیس ہو کر نیوی ڈاکیارڈ پر حملہ کیا اور ڈاکیارڈ میں داخلے کی کوشش کرتے ہوئے شدید فائرنگ کی، دو طرفہ فائرنگ کے تبادلے میں 2 حملہ آور ہلاک جبکہ 4 دہشت گردوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک افسر ہلاک جبکہ 6 جوان زخمی ہوئے۔
مقامی میڈیا رپورٹس میں کہا جارہا ہے کہ اویس جاکھرانی کو ان کے چھوٹے بھائی دانیال نے اپنے کزن ریاض احمد کے ہمراہ شناخت کیا۔اویس جمعہ کی شام گھر سے اسلام آباد جانے کا کہہ کر نکلا تھا جس کی وجہ سے گھر والے مطمئن تھے۔
ریاض نے مقامی میڈیا کو بیان دیا ہے کہ اویس کو ہرجگہ تلاش کیا گیا تھا۔ لیکن، اُن کا کوئی سراغ نہیں مل سکا تھا۔ انہوں نے اویس کے ساتھ پیش آنے والے کسی بھی واقعے سے لاعلمی کا اظہار کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ انہیں ایک نامعلوم شخص نے فون کرکے اطلاع دی تھی کہ اویس کی لاش ایدھی سرد خانے میں موجود ہے۔
اویس کے والد اے آئی جی انسپکشن علی شیر جاکھرانی ان دنوں خادم حج کی حیثیت سے سعودی عرب میں ہیں۔ ان کی منگل کو وطن واپسی متوقع تھی۔